لوگ ہوا-پانی سے مر رہے ہیں، پھانسی کی کیا ضرورت! نربھیا معاملہ کے قصوروار کی دلیل
راجدھانی دہلی کے نربھیا اجتماعی آبروریزی سانحہ کے مجرم اکشے نے سپریم کورٹ میں منگل کو نظر ثانی کی عرضی داخل کی۔ اکشے نے اپنے وکیل اے پی سنگھ نے ذریعے نظر ثانی عرضی داخل کی ہے
نئی دہلی: راجدھانی دہلی کے نربھیا اجتماعی آبروریزی سانحہ کے مجرم اکشے نے سپریم کورٹ میں منگل کو نظر ثانی کی عرضی داخل کی۔ اکشے نے اپنے وکیل اے پی سنگھ نے ذریعے نظر ثانی عرضی داخل کی ہے۔ سزائے موت پانے والے اکشے نے نظرثانی کی درخواست میں کہا ہے کہ دہلی کے لوگ ہوا اور پانی کی آلودگی سے مر رہے ہیں، تو اسے پھانسی کیوں دی جا رہی ہے؟
اکشے کمار نے مزید کہا وید، پوران اور اُپ نشد میں ہزاروں سالوں تک جینے کا ذکر ہے، مذہبی کتابوں کے مطابق لوگ ستیوگ میں ہزاروں سال زندہ رہتے تھے لیکن اب کلجگ میں تو لوگ 50-60 سال میں خود ہی مر جاتے ہیں ایسے میں کسی کو پھانسی پر چڑھانے کی کیا ضرورت ہے!
ادھر، اکشے کے وکیل اے پی سنگھ نے عدالت کے احاطے میں میڈیا سے بات چیت میں کہا، ’’اکشے غریب اور کمزور طبقے سے ہے اور اس کی طرف سے نظرثانی درخواست دائر کرنے میں ہوئی تاخیر کو موضوع نہیں بنایا جانا چاہئے‘‘۔
اے پی سنگھ نے کہا کہ ان کی کوشش بے گناہ کو بچانے کی ہے اور درخواست میں کئی حقائق پیش کئے گئے ہیں۔ غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نو جولائی 2018 کو ونے، پون اور مکیش کی نظر ثانی کی عرضیاں مسترد کر چکا ہے، لیکن اکشے نے ابھی تک نظر ثانی کی عرضی داخل نہیں کی تھی۔ اے پی سنگھ دیگر مجرمان پون اور ونے کے بھی وکیل ہیں۔
غور طلب ہے کہ 16 دسمبر 2012 کو نربھیا کو اجتماعی آبروریزی کے بعد سنگین حالت میں پھینک دیا گیا تھا۔ کئی دنوں کے علاج کے بعد انہیں ايرلفٹ کرکے سنگاپور کے ملکہ الزبتھ ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، لیکن اس کو بچایا نہ جا سکا اور انہوں نے وہیں دم توڑ دیا تھا۔
اس صورت میں چھ ملزم پکڑے گئے تھے، جس سے ایک نابالغ تھا اور اسے بچہ اصلاح گھر بھیج دیا گیا تھا، جہاں سے اس نے اپنی سزا پوری کر لی تھی، جبکہ ایک ملزم نے خود کشی کر لی تھی۔ باقی چاروں کو نچلی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی، جسے دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Dec 2019, 7:11 PM