ندائے حق: ہندوستانی مسلمان، مسائل اور ممکنات... اسد مرزا

ملک کے موجودہ حالات میں مسلم قوم کے اکابرین اور رہبرانِ ملت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کو موجودہ حالات سے جدوجہد کرنے کے لیے ایک جامع و مؤثر حکمتِ عملی وضع کریں

Getty Images
Getty Images
user

اسد مرزا

ملک کے موجودہ حالات میں دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ہندوستانی مسلمان داخلی و خارجی طاقتوں کے زبردست دباؤ میں آتے جا رہے ہیں۔ ملک کی داخلی طاقتوں کا دباؤ انہیں نفسیاتی طور پر کمزور کر رہا ہے اور مسلمانوں کو اپنی توانائیاں، اپنی برادری اور وطن کی ترقی پر خرچ کرنے کا موقع دینے کے بجائے مسلسل چیلنجز کا سامنا کرنے کی وجہ سے ان کی توانائی اور وسائل غیر ضروری امور پر صرف ہو رہے ہیں۔ تاہم بہتر ہوگا کہ مسلم برداری حالات کو موجودہ تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ہی ان حقائق کا تجزیہ بھی کرے جو قوم کی موجودہ حالت اور اس کو درپیش المیہ کے لئے ذمہ دار ہیں۔ مسائل سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی ہمہ رخی ہونی چاہیے جو واضح طور پر وسائل اور نتائج سے بخوبی ہم آہنگی رکھتی ہوں۔

ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش مسائل سماجی، سیاسی، معاشی اور مذہبی تمام نوعیت کے ہیں۔ چنانچہ ان سے نمٹنے کے لئے وضع حکمت عملی بھی ہمہ رخی ہونی چاہیے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جو سیاسی تبدیلیاں ملک میں رونما ہوئی ہیں، خاص طور سے مئی 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سیاسی حالات نے جو تبدیلی آئی ہے اس کا اثر بالخصوص مسلم قوم کے اوپر بہت زیادہ ہوا ہے۔ ان حالات نے مسلم قوم کے دانشوروں، ہمدردوں، قائدین اور بہی خواہوں کو بہت زیادہ مایوس کیا ہے۔ حالیہ سیاسی حالات پر مسلمانوں کے مذہبی اور برادری کے قائدین کی جانب سے ردِعمل بھی آیا ہے لیکن اس ردعمل میں ٹھوس اقدامات شامل نہیں ہیں۔ یہ مایوسانہ رویہ اور کمتری کا احساس مسلم قوم کے لیے بہتر نہیں ہے۔ اس کے بجائے اس وقت سنجیدگی کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا جائے اور ان کے کسی ممکنہ اور مثبت حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، جو کہ مسلم قوم اور ملک دونوں کے حق میں بہتر ثابت ہوسکیں۔


ہندوستانی مسلمانوں کو اس وقت درپیش مسائل کا ممکنہ حل اپنا محاسبہ اور مسائل کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی نکل سکتا ہے۔ ان مسائل نے مسلم قوم کو دوسروں پر انحصار کرنے والی ایک پسماندہ قوم میں تبدیل ہونے پر مجبور کردیا ہے، جو کہ اس کے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہو رہے ہیں۔ ان مسائل پر گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا قدم مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر ترتیب دیا جانا چاہیے۔ سب سے پہلے مسلمانوں کو اپنی ایک متحدہ امیج بحیثیت مسلم قوم پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اپنے اندرونی اختلافات کو ظاہر کرنے کی۔

مسلمانوں کو درپیش مسائل

مسلم قوم کے مذہبی قائدین، اکابرین اور رہبرانِ ملت کی جانب سے ایک تحریک شروع کی جائے جس کے ذریعہ مسلم قوم کی طبقاتی اور فرقہ واری تقسیم کو ختم کیا جاسکے۔ دوسری قوموں کی نظروں میں مسلمان ایک متحدہ قوم ہے نہ کہ طبقاتی یا ذات پات پر مبنی سماج۔ اس لئے اگر ہم دوسروں کو متحد نظر آتے ہیں تو ہمیں متحدہ شبیہ اور متحدہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن ہمارے علماء اور ان کی پیروی کرنے والوں کے درمیان رواداری اور یکجہتی قائم کرنے کے لئے سرگرم ہونا چاہیے۔


مزید یہ کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کسی مسئلہ پر صرف ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے اس پر فعال رویہ اختیار کریں اور یہ تجزیہ کریں کہ اس مسئلہ سے انھیں کیا نقصان پہنچ رہا ہے یا کیا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی سطح پر جو لوگ مسلمانوں کی نمائندگی سنجیدگی کے ساتھ نہیں کرتے نظر آتے ہیں، انہیں آگے نہیں لانا چاہیے کیوں کہ وہ مسائل کو غلط طور سے پیش کرتے ہیں اور صرف اپنے ذاتی مقاصد کے لیے قوم کے رہنما بن کر سامنے آتے ہیں۔ صرف سنجیدہ اور پابند عہد افراد کو ہی مسلم قوم کے متعلق فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ 14 کروڑ مسلمانوں کی موزوں، مناسب اور موثر نمائندگی کرسکیں۔

تیسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ملک کی دوسری اقلیتوں جیسے پارسی، سکھ اور عیسائیوں کے ساتھ باہمی مستحکم تعلقات قائم کریں۔ انہیں ان اقلیتوں سے سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح تعلیمی، سماجی اور معاشی شعبوں میں بہتر مظاہرہ کر پا رہے ہیں اور ان کاوشوں سے مسلم قوم کی فلاح و بہبود کے لیے سبق لینا چاہیے۔ دیگر یہ کہ دوسری قومیں اپنے وسائل کا استعمال کس طرح کرتے ہیں اور کس طرح اپنے قائدین سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اس کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ دیگر یہ کہ اس باہمی تعاون سے ہمیں ملک میں رواداری اور بھائی چارہ کے اصولوں کو مضبوط بنانے میں بھی مدد ملے گی۔


چوتھے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے اپنی قوم کے طور طریقوں میں اصلاحات لانے کی کوشش کریں۔ جو کہ مسلمانوں کی منجملہ ترقی کے لئے بے حد ضروری ہیں۔ اس سلسلہ میں شادیوں اور دیگر مذہبی تقاریب پر بے جا اخراجات کو کم کرنا بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی برادری کی ایک بہتر امیج پیش کرنے کے لئے مثبت اور عملی اقدامات لینے کی کوشش کریں، مسلم سماج میں صفائی اور تعلیم کی ضرورت کو فروغ دیں۔ یہ دو احکام ایسے ہیں جن پر مقدس قرآن مجید میں بھی بار بار عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

آخرمیں مسلمانوں کے نفسیاتی طورپر کسی بھی مسئلہ سے نمٹنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں تمام مسلم طبقات کی نمائندگی کرنے والے بزرگوں کی ایک کل ہند کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعہ عملی پیغامات قوم کے ہر شخص تک پہنچایا جاسکے، جس میں دینی مدارس، سیاسی و سماجی کارکن اور نوجوانوں کا ایک اہم کردار ہوسکتا ہے۔ سیاسی محاذ پرمسلمانوں کو ہمہ رخی حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے۔ ملک کی سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو مضبوط بنانا چاہیے اور ہندوستان کی سیکولر اور صحیح سوچ رکھنے والی 63 فیصد آبادی کے ساتھ مل جل کر کام کرنا چاہیے۔


نجات کی کلید

ملک کے سیاسی عمل میں ایک سرگرم نمائندے کی حیثیت سے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو اپنے ساتھ نوجوانوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جس سے کہ انھیں سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی تربیت دی جاسکے اور ساتھ ہی ان کو سیکولر طاقتوں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر اپنی قوم کی بہتری کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں یہ واضح رہنا چاہیے۔ ہمیں، ہمارے عوامی نمائندوں کے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہنا چاہیے۔ ہمیں عوامی نمائندوں کے ساتھ تعلقات قائم کرکے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ تعلقات ہموار ہوں اور ہمارے عوامی نمائندے ہمیں صرف شکایتی ہی نہ سمجھیں بلکہ وہ مسلم قوم کے ان نوجوانوں کو اپنی سیاسی ٹیم کا ایک بااثر حصہ تصور کریں۔ اس کے علاوہ ہمیں پابند عہد قائدین میں ہم آہنگی پیدا کرنا چاہیے جو مسلمانوں کی حقیقی خواہشات کی عکاسی کرنے کے علاوہ ان کو سیاسی اور معاشی طور پر بااختیار بنانے میں مدد کرسکیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی کے لئے جس کلیدی عنصر کی نشاندہی کی جاسکتی ہے وہ ہے مسلمانوں میں تعلیم کا فقدان۔ ایک تجزیہ کے مطابق گزشتہ 25 برسوں کے دوران مسلمانوں کی تعلیمی اہلیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور ماضی کے مقابلہ میں مسلم برادری میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تاہم ہمیں ہمارے بچوں کی تعلیم کے لئے مزید جدوجہد اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ سماجی اورمعاشی طور پر کمزور برادری کے بچے بھی تعلیم حاصل کرسکیں۔ ہمیں اپنے اسکولوں اور کالجوں کو دیہی اور ضلع سطح پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے تمام طبقات کو معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے اور بچوں میں اسکول ترک کرنے کے رجحان کو بھی ختم کیاجاسکے۔ اس کے لئے مربوط کوششوں اور کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے حکومت سے توقع رکھنے کے بجائے ہمیں اپنے طور پر کوششیں کرنی چاہیے۔


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے ہر شہر اور قصبہ میں مسلمانوں کے اسکول اور کالجس موجود ہیں لیکن ان میں سے اکثریت جدید آلات اور معیارات سے عاری ہیں یا پھر تدریسی عملہ خاطر خواہ پیشہ وارانہ صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کو فعال بنانے کے لئے ایک جامع منصوبہ وضع کیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک کل ہند سطح کی کمیٹی قائم کی جانی چاہیے، جسے یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ مسلمانوں کو کس طرح کم خرچ میں معیاری تعلیم موجودہ انفراسٹرکچر کے ذریعہ فراہم کی جاسکتی ہے۔

گزشتہ 25 برسوں کے دوران مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی تنظیمیں ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی ہیں لیکن درحقیقت ان کی سرگرمیاں اپنی ذاتی ترقی اور مفاد تک ہی محدود رہتی ہیں۔ ان میں برادری کے لئے ذمہ داری اور پیشہ وارانہ سنجیدگی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایسی تمام تنظیموں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لایا جاسکے اور ان کے انسانی و مالیاتی وسائل کو برادری کی ترقی و ترویج کے لئے بہتر طور پراستعمال کرتے ہوئے منصوبہ بندی کی جاسکے۔


مسلم قوم کی موجودہ طلب اور خواہشات کی مناسبت سے حکمت عملی تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مسلم قوم کی سماجی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔ تعلیم کے علاوہ کل ہند سطح پر ایک ایسی کمیٹی بھی قائم کرنا چاہیے جو خیراتی کاموں میں مسلمانوں کی نمائندگی کرسکے چاہے وہ آفات سماوی ہوں یا حکومت کی مختلف سماجی پروگرام یا غریبوں کو کھانا کھلانا ہو یا بیماریوں کی نگہداشت۔ ہمیں ایک ایسی قوم کے طور پر ابھرنا ہوگا جسے قومی بہبود کے محاذ پر صف اول میں دیکھا جاسکے، جہاں ہم برادران وطن کی کاندھے سے کاندھا ملاکر مدد کرسکیں اور ہمیں ملک کی ترقی وخوشحالی میں برابر کا شریک تصور کیا جاسکے۔ (جاری ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔