اذان کی آواز پر پھر سوال

این جی ٹی نے دہلی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مساجد کے اسپیکروں کی چانچ کریں اور پتہ لگائیں کہ اذان کی آواز طے شدہ حد کے اندر ہے یا نہیں۔

Getty Images
Getty Images
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی :سینکڑوں سالوں سے اس ملک میں اذان کی صدائیں بلند ہوتی رہی ہیں، کبھی بھی کسی غیر مسلم کو اعتراض نہیں ہوا، لیکن جب سے بالی وڈ گلوکار سونو نگم نے اس معاملہ پر متنازعہ ٹوئٹ کیا ہے تب سے ایک خاص نظریہ کے لوگ تعصبانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اور اس تنازعہ کو ہوا دینے میں لگے ہیں۔ بھگوا گروہ سے وابستہ شر پسند عناصر اور کچھ نام نہاد سادھو سادھوی اذان کے خلاف مسلسل زہر فشانی کر رہے ہیں۔ اب ایک بھگوا تنظیم نے اس معاملہ پر این جی ٹی سے رجوع کیا ہے ۔ اکھنڈ بھارت مورچہ نامی تنظیم نے عرضی میں کہا ہے کہ مساجد سے آنے والی اذان کی آواز اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس سے آس پاس رہنے والوں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ عرضی پر نوٹس لیتے ہوئے این جی ٹی نے دہلی حکومت کی پالوشن کنٹرول کمیٹی کو یہ حکم دیا ہے کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ کہیں مساجد سے آنے والی آواز یں طے شدہ حد سے زیادہ تو نہیں ۔ نیشنل گرین ٹربیونل کے چیئر مین جسٹس سوتنتر کمار نے حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوتی آلودگی پر طے شدہ حد کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کارروائی کی جائے۔

سونو نگم کا ٹوائٹ
سونو نگم کا ٹوائٹ

سوچنے اور سمجھنےوالی بات یہ ہے کہ مساجد سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ دی جانے والی اذان مختصر ایک منٹ کی ہوتی ہے ۔ کیا چند لمحوں کی اذان سے کسی کی صحت خراب ہو سکتی ہے؟ اس کے علاوہ مساجد اکثر ان مقاموں پر ہوتی ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہوتے ہیں یعنی آس پاس رہنے والے زیادہ تر مکینوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

کافی تعداد میں غیر مسلم اذان کو برا نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اذان ان کے لئے الارم کا کام کرتی ہے اور جیسے اذان کی صدا آتی ہے وہ اپنے معمول کے کام شروع کر دیتے ہیں۔

Getty Images
Getty Images

ہندوستان کے لوگ ہمیشہ سے نہ صرف رواداررہے ہیں بلکہ وہ دوسرے مذاہب و عقائد پر عمل بھی کر تے ہیں۔ متعدد غیر مسلم خواتین و مرد دیکھے جا سکتے ہیں جو اپنے بیمار بچوں کو لے کر مساجد کی سیڑیوں اور دروازوں کے سامنے لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور نمازیوں سے ان کے بچوں پر دم کرنے کے لئے کہتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ ایسے روادار لوگ کیا کبھی اذان کی آواز پر سوال اٹھا سکتے ہیں؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

واضح رہے کہ کچھ دن قبل گلوکار سونو نگم نے اذان کی آواز پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا تھا ،جس پر کئی مسلم تنظیموں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا ۔ اپنے خلاف ماحول دیکھ کرسونو نگم ہمدردی اور شہرت حاصل کرنے کے لئے نائی کو گھر بلا کراپنا سر منڈولیا تھا۔ جب سونو نگم اپنے ٹوئٹ کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے تو آخر میں انہوں نے ٹوئٹر کو الوداع کہہ دیا ۔ سونو نگم ٹوئٹر سے تو بھاگ گئے لیکن انہوں نےمسلمانوں،مساجد، اور اذان خلاف شرپسندوں کو بیان بازی کرنے کے لئے ہتھیار بھی تھما گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔