رافیل معاملہ میں نیا انکشاف، یکساں خصوصیات کے باوجود قیمت 40 فیصد بڑھی

این ڈی اے حکومت کے ذریعہ 2016 میں 36 رافیل طیاروں کے لیے 7.8 ملین یورو میں کیے گئے معاہدے کے حساب سے فی رافیل طیارہ 217 ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

گزشتہ کئی مہینوں سے رافیل معاہدہ سے متعلق ملک کی سیاست میں ہنگامہ برپا ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی اسے مودی حکومت کا بہت بڑا گھوٹالہ قرار دے چکے ہیں۔ جو چیزیں ابھی تک سامنے آئی ہیں اس سے صاف طور پر لگتا ہے کہ کئی سطح پر قصداً بے ضابطگی برتی گئی ہے۔ اب بھی رافیل معاہدہ پر لگاتار نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ تازہ انکشاف ماہر دفاع اجے شکلا نے ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ میں تحریر کردہ اپنے مضمون میں کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فرنچ کمپنی دسالٹ کے ساتھ 2016 میں مودی حکومت نے 36 جنگی طیاروں کے لیے جو معاہدہ کیا تھا اس کی لاگت 2012 میں دسالٹ کے ذریعہ 126 طیاروں کے لیے دی گئی تجویز سے 40 فیصد زیادہ ہے۔

2012 سے دسالٹ کے ساتھ ہوئے معاہدے میں سیدھے طور پر شامل وزارت دفاع کے دو افسران کے حوالے سے انھوں نے بتایا ہے کہ 126 طیاروں کے لیے دسالٹ نے 19.5 بلین یورو کی بولی لگائی تھی، جسے سب سے کم اندازہ کیا گیا تھا اور اس بنیاد پر اس کی بولی کو جیت ملی تھی۔ اس حساب سے 126 طیاروں کی کل لاگت 1 لاکھ 27 ہزار کروڑ روپے ہوتی اور ایک طیارہ پر تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے کا خرچ آتا۔ طیاروں کے ساتھ ساتھ اسی لاگت میں کئی دیگر قسم کے خرچ شامل تھے جیسے کہ تکنیک کی منتقلی، ہندوستانی ضرورتیں، اسلحے، کل پرزے اور دیکھ ریکھ وغیرہ۔

اس تجویز کے تحت 18 رافیل طیارہ فرانس میں بنتے اور پوری طرح سے تیار ملتے۔ 108 تیاروں کو ہندوستان میں ایچ اے ایل (ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ) کے ذریعہ بنایا جاتا جس کا سامان فرنچ کمپنی دسالٹ کے ذریعہ مہیا کرایا جاتا۔ اسی لاگت میں ایچ اے ایل کی محنت کی قیمت بھی شامل تھی۔

اس کے موازنہ میں ستمبر 2016 میں این ڈی اے حکومت کے ذریعہ 36 رافیل طیاروں کے لیے 7.8 بلین یورو میں کیے گئے معاہدے کے حساب سے فی رافیل پر 217 یورو ملین خرچ ہوں گے۔ جب کہ پہلے والے معاہدے کے تحت فی طیارہ پر 155 ملین یورو خرچ ہونے تھے۔ یہ لاگت تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے۔

یہ ساری جانکاری دینے کے بعد اجے شکلا نے لکھا ہے کہ ’’یہ صاف نہیں ہے کہ مرکزی وزیر دفاع نرملا سیتارمن، وزیر مالیات ارون جیٹلی اور ہندوستانی فضائیہ کے افسران سمیت پوری این ڈی اے حکومت نے کس طرح یہ دعویٰ کیا کہ 2016 میں 36 رافیل طیاروں کے لیے کیے گئے معاہدے کی لاگت 126 رافیل طیاروں کے معاہدے سے 20 فیصد کم ہے۔‘‘

دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ یو پی اے حکومت میں جو طیارہ خریدا جا رہا تھا یا خریدنے کے لیے مول بھاؤ ہو رہا تھا، اس میں وہ ساری خصوصیات نہیں تھیں جو مودی حکومت کے دور میں ہوئے معاہدے میں ہیں۔ لیکن اجے شکلا نے صاف لکھا ہے کہ پہلے والے معاہدے میں بھی جن طیاروں کو خریدا جانا تھا وہ بھی ان سبھی خصوصیات سے مزین تھے، جو کہ نئے معاہدے والے طیارہ میں ہیں۔

دسالٹ کی 19.5 بلین یورو کی تجویز اس وقت بھی جائز تھی جب 10 اپریل 2015 کو پی ایم مودی نے پیرس میں یہ اعلان کیا تھا کہ انھوں نے فرانس کے اس وقت کے صدر فرانسوا اولاند سے حکومت کے درمیان ہوئے معاہدے کے تحت 36 مکمل طور پر تیار طیاروں کو مہیا کرانے کی گزارش کی ہے۔

فروری 2015 میں بنگلورو میں ہوئے ایرو انڈیا کے شو کے دوران دسالٹ کے سربراہ ایرک ٹریپیر نے بتایا تھا کہ ہماری قیمت پہلے دن سے ایک ہی رہی ہے اور اس محاذ پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

اس نئے انکشاف سے ایک بار پھر مودی حکومت کے ذریعہ کیے رافیل معاہدہ پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ آخر کیوں 40 فیصد بڑھی قیمتوں پر یہ معاہدہ کیا گیا؟ کسے فائدہ پہنچانے کے لیے؟ اور حکومت گزشتہ کچھ مہینوں سے کیا چھپانے کی کوشش میں چیزوں کو غلط طریقے سے پیش کر رہی ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔