آج سے نافذ ہوں گے تین نئے فوجداری قوانین ، نافذ ہونے کے بعد کیا تبدیلیاں آئیں گی؟

تین نئے فوجداری قوانین یعنی انڈین جوڈیشل کوڈ، انڈین سیکیورٹی کوڈ اور انڈین ایویڈینس ایکٹ آج سے نافذ العمل ہوں گے۔ ان قوانین کے لاگو ہوتے ہی کچھ تبدیلیاں بھی آئیں گی۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

تین نئے فوجداری قوانین،  انڈین جوڈیشل کوڈ یعنی بھارتیہ نیائے سنہیتا، انڈین  سیکیورٹی کوڈ یعنی بھارتیہ سرکشا سنہیتا اورانڈین ایویڈینس ایکٹ یعنی بھارتیہ ساکشے ادھینئم آج یعنی یکم جولائی 2024 سے لاگو ہوں گے۔ انڈین جوڈیشل کوڈ کا قانون اب آئی پی سی (انڈین پینل کوڈ) کی جگہ لے گا۔ یہ دونوں بل پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں پاس ہوئے تھے۔

نئے قوانین پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی تھی اس لئے اخباروں میں اس کے تمام پہلوؤں کا ذکر نہیں ہوا تھا جس کی وجہ سے عوام کو ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے اور عوام میں نئے قوانین کے تعلق سے تصویر صاف نہیں ہے۔ نئے قانون میں ریپ کے لیے دفعہ 375 اور 376 کو سیکشن 63 سے تبدیل کیا جائے گا۔ گینگ ریپ کے لیے دفعہ 70 اور قتل کے لیے دفعہ 302 کے بجائے دفعہ 101 ہو گی۔ انڈین جوڈیشل کوڈ میں 21 نئے جرائم شامل کیے گئے ہیں، جن میں ایک نیا جرم موب لنچنگ ہے۔ اس میں موب لنچنگ پر بھی قانون بنایا گیا ہے۔ 41 جرائم میں سزاؤں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 82 جرائم میں سزاؤں میں اضافہ کیا گیا ہے۔نیوز پورٹل ’اے بی پی‘ پر شائع خبر کے مطابق اس کے کچھ پہلو اس طرح ہیں ۔


نئے قانون کے مطابق فوجداری مقدمات کا فیصلہ سماعت ختم ہونے کے 45 دن کے اندر آئے گا۔ پہلی سماعت کے 60 دنوں کے اندر الزامات عائد کیے جائیں گے۔ تمام ریاستی حکومتوں کو گواہوں کے تحفظ اور تعاون کو یقینی بنانے کے لیے گواہوں کے تحفظ کی اسکیموں کو نافذ کرنا ہوگا۔

ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کے بیانات ایک خاتون پولیس افسر متاثرہ کے سرپرست یا رشتہ دار کی موجودگی میں ریکارڈ کرے گی۔ میڈیکل رپورٹ سات دن میں مکمل کی جائے۔


قانون میں خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کے نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس میں بچے کی خرید و فروخت کو ایک گھناؤنا جرم قرار دیا گیا ہے جس کے لیے سخت سزا کا انتظام ہے۔نابالغ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی سزا موت یا عمر قید ہوسکتی ہے۔

نئے قانون میں اب ایسے معاملات کے لیے سزا کی دفعات شامل کی گئی ہیں جن میں خواتین کو شادی کے جھوٹے وعدوں یا گمراہ کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ نئے قانون میں خواتین کے خلاف جرائم کا شکار ہونے والی خواتین کو 90 دن کے اندر اپنے مقدمات کی باقاعدہ اپ ڈیٹ حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ خواتین اور بچوں سے متعلق جرائم کے کیسز میں تمام ہسپتالوں میں مفت علاج کی فراہمی لازمی ہو گی۔


ملزم اور متاثرہ دونوں کو 14 دنوں کے اندر ایف آئی آر، پولیس رپورٹ، چارج شیٹ، بیان، اعترافی بیان اور دیگر دستاویزات کی کاپیاں حاصل کرنے کا حق ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹرانک کمیونیکیشن کے ذریعے واقعات کی اطلاع دی جاسکتی ہے جس سے تھانے جانے کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ نیز، کوئی شخص اپنے دائرہ اختیار کے تحت پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرا سکتا ہے۔

اب سنگین جرائم کے لیے فرانزک ماہرین کے لیے جائے وقوعہ کا دورہ کرکے شواہد اکٹھے کرنا لازمی ہوگا۔ جنس کی تعریف میں اب ٹرانس جینڈر افراد بھی شامل ہوں گے، جو مساوات کو فروغ دیتا ہے۔ خواتین کے خلاف کچھ جرائم کے لیے، جب بھی ممکن ہو، متاثرہ کا بیان ایک خاتون مجسٹریٹ کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا انتظام ہے۔


عوام میں اس پر بھی بے چینی ہے کہ جن معاملات کی سماعت پرانے قوانین کے حساب سے چل رہی ہیں کیا ان کی سماعت پرانے قوانین کے تحت چلیں گی یا نئے قوانین کے تحت ۔   ابھی اس تعلق سے قومی آواز کے پاس کوئی تصویر صاف نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔