نہ جوش ختم ہوا نہ توانائی، اندر ہی اندر سیاسی تحریک بن رہا کسان مظاہرہ!
موجودہ حالات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ کسان تحریک صرف کسانوں کی ہی تحریک نہیں رہ گئی ہے۔ یہ ایک عوامی تحریک اور موجودہ اقتدار کے خلاف اندر ہی اندر ایک سیاسی تحریک کی شکل بھی لے رہی ہے۔
سورج کی گرمی بڑھنے لگی ہے، فروری کا مہینہ ختم ہوتے ہوتے موسم کا مزاج بدل چکا ہے۔ لیکن گزشتہ تین مہینے سے دہلی کی سرحدوں پر جمے کسانوں کے جدوجہد کی توانائی اور ان کا جوش پوری طرح برقرار ہے۔ دہلی کے موسم کے ساتھ ہی مظاہرین کسانوں نے حکومت، اقتدار اور اقتدار کے حامیوں کے تیور بھی دیکھ لیے۔ ٹھٹھرتی سردی میں ٹھنڈے پانی کی بوچھار برداشت کی، راہ میں بچھے کانٹوں اور رکاوٹوں کو دیکھا، مسلح پولس اور نیم فوجی دستوں کی ٹکڑیوں کا دبدبہ دیکھا۔ 26 جنوری کے واقعہ کے بعد ایک وقت اس کسان تحریک کی شعاع ٹمٹماتی بھی نظر آنے لگی تھی، لیکن اقتدار کی منشا سمجھ آتے ہی عوامی جدوجہد کی مثال بن چکی کسان تحریک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف دوبارہ زندہ ہوئی، بلکہ زیادہ جوش اور توانائی کے ساتھ اس کی گونج دہلی کی سرحدوں سے لے کر گاؤں گاؤں اور شہروں کے چوراہوں تک پہنچ گئی۔
حکومت بھی گاہے بگاہے کسان تحریک کے تعلق سے بیان دے رہی ہے، لیکن کسانوں کا رخ واضح ہے۔ تینوں متنازعہ زرعی قوانین واپس ہوں، ایم ایس پی کو قانونی جامہ پہنایا جائے اور کسان تحریک کے دوران جن کسانوں پر مقدمے ہوئے ہیں، وہ مقدمے ختم ہوں اور جن کسانوں کو گرفتار کیا گیا ہے انھیں بلاشرط آزاد کیا جائے۔
کسان تحریک کا ایک قیام غازی پور بارڈر ہے جہاں دن میں ماحول معمول پر نظر آتا ہے۔ اسٹیج پر دو چار لوگ ہوتے ہیں، سامعین کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہوتی، لیکن دہلی اور یو پی کو جوڑنے والے اس راستے پر کسانوں کے پنڈالوں اور ٹریکٹر-ٹرالیوں میں بنے عارضی آشیانوں میں چہل پہل رہتی ہے۔ مین اسٹیج کے سامنے اب اونچا اور ہوادار پنڈال بنایا جا رہا ہے تاکہ موسم کے بدلے مزاج سے مقابلہ کیا جا سکے۔ کولر اور پنکھوں کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن ملک کے ہر موسم کی گہری سمجھ رکھنے والا اور اس سے دو دو ہاتھ کرنے والا کسان موسم کے بدلاؤ سے متفکر نہیں ہے۔
دوپہر کے یہی تقریباً 3 بجے ہوں گے۔ مظفر نگر کی ایک کھاپ کے سنجے چودھری اپنے ساتھیوں کے ساتھ پنڈال میں بیٹھے حقہ گڑگڑاتے نظر آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم تو پگڑی سر پر رکھ کر آگ برساتی گرمی میں بھی کھیت میں جمع ہو جاتے ہیں، تو یہ موسم کیا کر لے گا۔‘‘ ان کے ساتھ ہی تقریباً 70 سالہ دھنکو بول اٹھتے ہیں ’’اب موسم دیکھیں کہ زمین... زمین ہی نہ رہے گی تو موسم کے آنے جانے سے کیا ہوگا۔‘‘ دھنکو کی بات پر سبھی لوگ سر ہلاتے ہیں۔ صاف ہے کہ کسانوں میں اپنی زمینیں چھن جانے کا خوف ہے۔ اور ایک عزم کہ اب جب تین مہینے ہو گئے تو تین سال بھی لگ جائیں، لیکن قانون واپس کرا کے ہی لوٹیں گے۔
ابھی 23 فروری کو شہید بھگت سنگھ کی جینتی پر کسانوں نے ’یوم پگڑی سنبھال‘ منایا۔ اس موقع پر بھارتیہ کسان یونین کے قومی صدر نریش ٹکیت غازی پور بارڈر پہنچے تھے۔ تحریک کی اب تک کی ترقی اور اس کی رفتار سے مطمئن نظر آئے نریش ٹکیت نے کہا کہ ’’اب جب حکومت زرعی قوانین کو ملتوی ہی کر چکی ہے تو سیدھے انھیں ختم کر دے اور کسانوں کے ساتھ مل کر نئے قوانین بنا لے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ایم ایس پی کا قانون اور کسانوں پر مقدمات کی واپسی بھی اب ہمارے اہم مطالبات ہیں۔
مغربی اتر پردیش کے چند ایک کسانوں کے ذریعہ حال میں اپنی فصلوں کو تباہ کرنے پر نریش ٹکیت کا کہنا تھا کہ ’’ہاں، ایسا ہوا ہے، لیکن ہم کسانوں کو سمجھا رہے ہیں کہ ابھی فصلوں کو پکنے دیں، اس کے بعد کسان لیڈران طے کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔‘‘ تو کیا یہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش تھی؟ اس سوال پر نریش ٹکیت کا کہنا تھا کہ ’’حکومت تو پہلے ہی دباؤ میں ہے، دباؤ نہ ہوتا تو حکومت قوانین کو ملتوی کیوں کرتی۔‘‘
کسانوں کے مظاہرے کے مقام پر گہما گہمی پہلے جیسی ہی دکھائی پڑ رہی ہے۔ مین اسٹیج کے سامنے بڑا پنڈال لگانے کے علاوہ باقی پنڈالوں کو بھی بڑا اور ہوا دار کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ وہیں ہولی منانے کی تیاری بھی زور و شور سے جاری ہے۔ دہلی سرحد ختم ہوتے ہی جو پہلا تراہا پڑتا ہے وہاں ہولیکا دہن کے لیے لکڑیاں رکھی جا چکی ہیں۔ درمیان میں نوجوان ڈھول اور تھالیاں لے کر کچھ لوک گیت بھی گاتے ہیں۔ لنگر کا انتظام بدستور جاری ہے، ساتھ ہی اب پانی کو ٹھنڈا کرنے کے انتظام بھی کیے جا رہے ہیں۔
ایک چھوٹے پنڈال میں بجنور کے تقریباً 65 سالہ حکم سنگھ نے کسان تحریک کے لیے بلّوں اور بھارتیہ کسان یونین کی ہری پٹی والی ٹوپیاں بیچنے کا فڑ لگایا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روزانہ 50-40 ٹوپیاں تو فروخت ہو ہی جاتی ہیں۔ انھوں نے اپنے فڑ کے ساتھ ہی ایک جھانکی بھی بنا رکھی ہے، جس میں کھیتوں کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں ایک دیا جل رہا ہے۔ حکم سنگھ کہتے ہیں کہ یہ تحریک میں جان گنوانے والے شہیدوں کی ’جوت‘ (جیوتی) ہے۔
اُدھر اتراکھنڈ کے کسان بابا کشمیر سنگھ بھورا کے پنڈال میں شام کے لنگر کی تیاری ہو رہی ہے۔ بزرگ کسان آرام کر رہے ہیں، لیکن نوجوان آس پاس کی صاف صفائی کے ساتھ ہی سبزی وغیرہ کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ان کے پنڈال میں راشن، پانی کی بوتلوں اور دیگر اشیاء رکھی ہوئی ہیں۔ وہاں موجود نوجوان سکھوندر سنگھ بتاتے ہیں کہ ’’ہم تو پہلے دن سے یہاں ہیں اور لنگر چلا رہے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا کہ نوجوان کسان کچھ بے چین سے نظر آنے لگے ہیں کیونکہ اب سوائے تقریر اور میٹنگوں کے کچھ ہو نہیں رہا ہے۔ ایسے میں بزرگ کسان انھیں صبر رکھنے کی بات سمجھاتے ہیں۔ اسی پنڈال میں بزرگ تقریباً 75 سالہ اَدھا سنگھ نے کہا کہ ’’جوانوں میں گرمی زیادہ ہوتی ہے، ایسے میں انھیں سمجھانے کا کام ہم بزرگوں کا ہی ہے۔ اب ہم جوانوں کو کھیتوں میں بھیج رہے ہیں، انھیں اسٹیج سنبھالنے کا کام بھی دیا جائے گا تاکہ ان کا جوش کسی اور سمت میں نہ بھٹکے۔‘‘
کسان تحریک کی شروعات ایک غیر سیاسی تحریک کے طور پر ہوئی تھی۔ حالانکہ سبھی اپوزیشن پارٹیوں نے اس تحریک کو اپنی حمایت دی ہے۔ اب تو کئی سیاسی پارٹیاں نہ صرف اس تحریک سے جڑ گئی ہیں، بلکہ کسانوں کے اسٹیج پر بھی نظر آنے لگی ہیں۔ تو کیا اس سے کسان تحریک ’سیاسی‘ ہو گئی ہے؟ اس سوال پر ’وام کسان مورچہ‘ کے پنڈال میں بیٹھے ایک شخص کا کہنا ہے کہ ’’کسان تحریک کا سیدھا مقابلہ حکومت سے ہے، ایسے میں اگر کسانوں کے مطالبات منوانے کے لیے سیاسی دبدبہ بنایا جا سکتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’حکومت بھی تو سیاسی دباؤ ہی بنا کر کسان تحریک کو کچلنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔‘‘
مجموعی طور پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ کسان تحریک صرف کسانوں کی ہی تحریک نہیں رہ گئی ہے۔ یہ ایک عوامی تحریک اور موجودہ اقتدار کے خلاف اندر ہی اندر ایک سیاسی تحریک کی شکل بھی لے رہی ہے۔ بھلے ہی اس سیاسی تحریک کا ہدف ابھی صرف کسانوں کے مطالبات تک ہی محدود ہو، لیکن آنے والے دنوں میں اس کے طویل ترین اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔