نیٹ پرچہ لیک معاملہ: بہار پولیس نے جھارکھنڈ سے 6 افراد کو حراست میں لیا

نیٹ (یو جی) پرچہ لیک معاملہ کے تار جھارکھنڈ کے ہزاری باغ، رانچی اور دیوگھر سے بھی جڑ گئے ہیں۔ بہار پولیس کی اکنامک آفنس ونگ نے ہفتہ کو دیوگھر شہر سے اس معاملہ میں 6 افراد کو حراست میں لے لیا

<div class="paragraphs"><p>نیٹ امتحان / علامتی تصویر / آئی اے این ایس</p></div>

نیٹ امتحان / علامتی تصویر / آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

رانچی: نیٹ (یو جی) پرچہ لیک معاملہ کے تار جھارکھنڈ کے ہزاری باغ، رانچی اور دیوگھر سے بھی جڑ گئے ہیں۔ چنانچہ بہار پولیس کی اکنامک آفنس ونگ (ای او یو) نے ہفتہ کو دیوگھر شہر سے اس معاملہ میں 6 افراد کو حراست میں لے لیا۔ یہ سبھی بہار کے نالدہ کے رہائشی ہیں، جو دیوگھر میں کرائے کے مکان میں چھپ کر رہ رہے تھے۔

بہار پولیس کی ٹیم نے ہزاری باغ میں نیٹ (یو جی) کے لئے قائم کئے گئے امتحان کے مراکز کی بھی جانچ کی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ لیک ہوئے پرچہ کا سالور گینگ (حل کرنے والا گروہ) رانچی اور ہزاری باغ سے سرگرمیاں انجام دے رہا تھا۔

دیوگھر شہر سے جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے، ان میں سنٹو نامی نوجوان بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ دیگر لوگ یہاں گزشتہ کچھ دنوں سے مزدور بن کر ٹھہرے ہوئے تھے۔ بہار ای او یو کی ٹیم ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ پرچہ لیک میں ان کا کیا کردار ہے، اس بارے میں فی الحال سرکاری طور پر کوئی اطلاع منظر عام پر نہیں آئی ہے۔


ای او یو کی اب تک کی جانچ میں جس سکندر یادویندو نامی شخص کا نام پیپر لیک کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر سامنے آیا ہے، وہ کافی عرصے سے رانچی میں رہتا تھا اور ٹھیکیدار کے طور پر کام کرتا تھا۔ وہ رانچی میں واقع میڈیکل کالج ریمز (آر آئی ایم ایس) کے ایک کاٹیج میں بغیر اجازت کے رہتا تھا۔ اس نے ریمز میں ٹھیکے کی بنیاد پر چھوٹے دیکھ بھال اور مرمت کے کام بھی کروائے۔ اس نے ڈپلومہ کورس کیا تھا اور بعد میں کسی طرح دانا پور میونسپل کونسل بہار میں جونیئر انجینئر کا عہدہ حاصل کر لیا لیکن رانچی میں اس کے روابط برقرار رہے۔

ذرائع کے مطابق سکندر نے رانچی اور ہزاری باغ میں سالور گینگ کا نیٹ ورک بنا رکھا تھا۔ اس گینگ کے لوگ لیک ہونے والے پرچوں کو حل کر کے واٹس ایپ پر بھیجتے تھے اور اس کے بعد منتخب امیدواروں کو جوابات حفظ کرا دیئے جاتے تھے۔ بتایا جا رہا ہے کہ جن واٹس ایپ نمبروں سے کاغذات اور ان کے جوابات کا تبادلہ کیا گیا ان کے سِم فرضی ناموں سے خریدی گئے تھے۔ کام مکمل ہونے کے بعد تمام سم تلف کر دئے گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔