مودی کی بہادر شاہ ظفرکے مزار پر حاضری
یانگون: مرکزی حکومت کی ایک طرف یہ کوشش ہے کہ مغل بادشاہوں کا نام و نشان بھی مٹا دیا جائے لیکن دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی اپنے دورہ میانمار کے آخری دن یانگون میں واقع بادشاہ مرزا ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر یعنی بہادر شاہ ظفر کی مزار پر جاتے ہیں اور گل پوشی کرتے ہیں عطر چھڑکتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے مزار پر وزیر اعظم نریندر مودی کی اس حاضری پر سوال تو ہوں گے ۔ واضح رہے کہ میانمار کا دورہ کرنے والے زیادہ تر لوگ خاص طور سے ہندوستانی مسلم اور شاہی خاندانوں میں دلچسپی رکھنے والے لوگ بہادر شاہ ظفر کی درگاہ پر ضرور جاتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی 2012 میں بہادر شاہ ظفر کی درگاہ پر گئے تھے۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا انتقال 1862 کو برما (اب میانمار) کی اس وقت کی راجدھانی رنگون (اب یانگون )کی ایک جیل میں ہوئی تھی ۔ انتقال کے 132 سال کے بعد 1991 میں ایک یادگاری کمرے کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے کی گئی کھدائی کے دوران ایک قبر کا پتہ چلا۔ 3.5 فٹ کی گہرائی میں بہادر شاہ ظفر کی نشانیاں اور باقیات برآمد ہوئے۔ جانچ کرنے کے بعد یہ تصدیق ہوئی کہ یہ قبر بہادر شاہ ظفر کی ہی ہے۔ ان کی درگاہ کی تعمیر1994 میں ہوئی جس کا شمار آج دنیا کی مشہور اور تاریخی درگاہوں میں کیا جاتا ہے۔ درگاہ کاگوشہ گوشہ سے آخری مغل بادشاہ کی زندگی اور ان کی تاریخ کا ترجمان ہے۔
انگریزی حکمرانی کے دوران دلی کے تخت نشین بنے بہادر شاہ ظفر ایک نام نہاد بادشاہ تھے۔ حالانکہ انہیں بادشاہ کے طور پر کم اور ایک شاعر اور غزل گو کے طور پر زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی کئی نظموں اور غزلوں کو فلموں میں لیا جا چکا ۔
سنہ 1837 ستمبر ماہ میں والد اکبر شاہ دوم کی موت کے بعد بہادر شاہ ظفر تخت نشین ہوئے۔ اکبر شاہ دوم شاعردل ظفر کو مغلیہ حکومت کی باگ ڈور نہیں سونپنا چاہتے تھے۔ ویسے بھی بہادر شاہ ظفر کا دور آتے آتے دلی سلطنت کے پاس راج کرنے کے لئے محض دلی یعنی شاہ جہان آباد ہی بچا رہ گیا تھا۔
1857 تک انگریزوں نے تقریباً تمام ہندوستان کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ انگریزوں کے حملوں سے مشتعل باغی فوجیوں اور راجا مہاراجاؤں کو ایک مرکزی قیادت کی ضرورت تھی جو انہیں بہادر شاہ ظفر میں دکھائی دی۔
بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کے خلاف قیادت کو قبول کر لی لیکن 82 سالہ ضعیف آخر کار جنگ ہار گئے، انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ بہادر شاہ ظفر کو زندگی کےآخری ایام انگریزوں کی قید میں گزارنے پڑے۔ 400 برس سے بھی زیادہ چلا مغلیہ راج ختم ہو گیا۔
بہادر شاہ ظفر مغلیہ دور کے آخری بادشاہ توہیں ہی لیکن انہیں ایک نرم دل شاعر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ درد سےشرابور ان کے اشعار میں انسانی زندگی کی تلخ حقیقت اور احساسات کا ایک سمندرگامزن ہے۔ رنگون میں انگریزوں کی قید میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے کافی غزلیں کہیں۔ قید میں جب انہیں قلم تک نہیں دیا گیا تو انہوں نے جل چکیں تیلیوں سے ہی دیواروں پر ہی اپنی شاعری تحریر کرنا شروع کر دی۔ ان کایہ شعر ’’کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے، دو گز زمیں بھی نہ ملی کو ئے یار میں ‘‘ سب سے زیادہ مشہور ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر انتقال کے بعد دلی میں واقع مہرولی میں قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ کے نزدیک دفن ہونا چاہتے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے جگہ کی بھی نشاندہی کی ہوئی تھی لیکن افسوس ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی۔ برما میں انگریزوں کی قید کے دوران 7 نومبر 1862 کو علی الاصبح بہادر شاہ ظفر کا انتقال ہو گیا۔ انہیں اسی دن جیل کے قریب سپرد خاک کر دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں ان کی قبر کو پتوں سے ڈھک دیا گیا اور چاروں طرف بانس کی باڑھ لگا دی گئی ۔
انگریز نہیں چاہتے تھے کہ چار صدیوں تک ہندوستان پر راج کرنے والے مغلوں کے آخری بادشاہ کی تدفین کی خبر عام ہو کر ہندوستان تک پہنچے۔ ویسے بھی برما کے باشندگان کے لئے یہ کسی بادشاہ کی موت نہیں بلکہ کسی عام شخص کی موت تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Sep 2017, 1:57 PM