بیٹے کے لیے در در بھٹکتی نجیب کی ماں پر پولس کا ظلم
ایک بار پھر دہلی پولس کا بے رحم چہرہ سب کے سامنے آ گیا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے غائب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالب علم نجیب کی ماں فاطمہ نفیس بیٹے کی تلاش میں در در فریاد کر رہی ہیں لیکن انھیں ٹھوکروں کے علاوہ کچھ نہیں مل رہا ہے۔ آج بھی دہلی ہائی کورٹ کے سامنے پولس نے انتہائی بے رحمی سے گھسیٹتے ہوئے انھیں حراست میں لے لیا۔ نجیب کی ماں اپنی عرضی پر ہونے والی سماعت کے لیے سوموار کو دہلی ہائی کورٹ پہنچی تھیں۔ ان کے ساتھ کئی سماجی کارکنان اور طلبا بھی تھے جن کے پاس ’عدالتی پاس‘ تھا، لیکن معاملے کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ سے باہر آ کر نامہ نگاروں سے بات کر رہی نجیب کی ماں اور وہاں موجود دیگر لوگوں کے ساتھ پولس نے اچانک سے ظالمانہ رویہ اختیار کیا اور جبراً حراست میں لے لیا۔
نجیب کی تلاش میں طویل مدت سے سرگرم سماجی کارکن واثق ندیم خان نے اس سلسلے میں بتایا کہ سماعت کے بعد وہ لوگ ہائی کورٹ سے باہر نکلے جہاں میڈیا کے لوگوں نے نجیب کی ماں کو گھیر لیا اور ان سے سوال پوچھنے لگے۔ اسی درمیان نجیب کی تلاش کرنے کے لیے لگاتار سرگرم سماجی کارکنان اور طلبا نے نعرے بازی شروع کرت دی۔ ندیم خان نے بتایا کہ وہاں موجود ایک افسر نے ہم سے پوچھا کہ یہ سب کتنی دیر چلے گا۔ ہم لوگوں نے کہہ دیا کہ 10 منٹ۔ جواب سنتے ہی انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، اور تھوڑی ہی دیر بعد اچانک سے مقامی تھانہ کے ایس ایچ او آئے اور سب کے ساتھ دھکّا مکّی کرنے لگے۔ انھوں نے کئی میڈیا والوں کے ساتھ بھی بدسلوکی کی اور ان کے کیمرے بند کروا دیے۔ ان کے ساتھ آئی پولس نے نجیب کی ضعیف ماں کے ساتھ بھی زبردستی کی اور مخالفت کرنے پر گھسیٹتے ہوئے پولس کی گاڑی میں ڈال دیا۔ یہ نظارہ حیران کرنے والا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دہلی پولس نجیب کی ماں پر کس بات کا غصہ نکال رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق دہلی پولس نے نجیب کی ماں کے علاوہ کچھ طالب علموں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ فاطمہ نفیس کو تلک مارگ تھانہ میں رکھا گیا ہے اور ان کے ساتھ تین چار لوگ مزید ہیں۔ بقیہ لوگوں کو بارہ کھمبا تھانہ میں رکھا گیا ہے۔ بارہ کھمبا تھانہ میں حراست میں رکھے گئے ندیم خان نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ہے دہلی پولس کا اصل چہرہ۔ ایک سال سے اپنے بیٹے کی تلاش میں در در ٹھوکریں کھا رہی ایک ضعیف خاتون کے ساتھ دہلی پولس کا یہ رویہ ایک طرح سے بدلے کا جذبہ ظاہر کرتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’نجیب کی گمشدگی کے 6 مہینے بعد تک دہلی پولس نے کچھ نہیں کیا۔ ملزمین کی بات تو دور اس دوران دہلی پولس نے مشتبہ لوگوں سے بھی ٹھیک ڈھنگ سے پوچھ تاچھ نہیں کی۔ اب سی بی آئی بھی اس کیس میں وہی رویہ اختیار کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔‘‘
ندیم خان نے اس سلسلے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ہم کئی دن سے سی بی آئی صدر دفتر کے باہر بیٹھے ہیں لیکن کوئی سی بی آئی کا افسر ہمیں کیس کے بارے میں نہیں بتا رہا۔ آج جب ہائی کورٹ میں ہماری عرضی پر سماعت ہوئی تو عدالت نے سی بی آئی کو پھٹکار لگائی اورکہا کہ اس نے جانچ کے نام پر اب تک کچھ بھی نہیں کیا ہے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ سی بی آئی کو پھٹکار لگاتے ہوئے ہائی کورٹ نے آج سی بی آئی سے دوسری رپورٹ جلد داخل کرنے کے لیے کہا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے عرضی پر سماعت کے دوران واضح لفظوں میں کہا کہ جے این یو کے لاپتہ طالب علم نجیب کے معاملے کی جانچ میں سی بی آئی کی جانب سے ’عدم دلچسپی‘ کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ جسٹس جی ایس سستانی اور جسٹس چندر شیکھر کی بنچ نے سی بی آئی کے ذریعہ عدالت میں کہی گئی باتوں اور اس کے ذریعہ داخل تازہ حالات سے متعلق رپورٹ میں تضاد دیکھ کر برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے کہا کہ معاملے کی جانچ میں کسی بھی طرح کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا۔
جے این یو میں زیر تعلیم اور نجیب معاملے کے ایک اہم گواہ دلیپ کمار نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے اس سلسلے میں کہا کہ ’’دہلی پولس نے تو پہلے ہی اپنی لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نجیب کی گمشدگی کے کافی دنوں بعد پوچھ تاچھ کی لیکن سی بی آئی بھی اس معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے جو افسوسناک ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’پولس کے ذریعہ جے این یو طلبا کو حراست میں لینا اور پھر جے این یو انتظامیہ کے ذریعہ پریشان کیا جانا نجیب معاملے کو دبانے کی کوشش ہے لیکن ہم خاموش رہنے والے نہیں ہیں۔ ہم اس وقت تک نجیب کی ماں کے ساتھ کھڑے رہیں گے جب تک انھیں انصاف نہیں مل جاتا۔‘‘
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Oct 2017, 10:56 PM