نبا نسیم: مسلم خاتون کا بدلتا ہوا انقلابی چہرہ!
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے جب اے ایم یو کیمپس کے صدر سے زیادہ عبداللہ گرلز کالج کی صدر موضوع بحث بنے۔
علی گڑھ: صدارتی امیدوار کے طور پر اپنی تشہیری مہم کے آخری دن اجتماعی تقریب میں 18 سالہ نبا نسیم اپنے بازوﺅں کو دائیں اور بائیں لہرا کر ناراضگی کے ساتھ کہتی ہیں کہ ”عبداللہ گرلز کالج کا واش روم صاف کیوں نہیں ہوتا ہے، وہاں موجود کوڑہ دان کو بدلا کیوں نہیں جاتا ہے، لائبریری میں 2002 کے بعد کی کتابیں کیوں موجود نہیں ہیں!“ نبا نسیم چیختے ہوئے مزید سوال کرتی ہیں کہ ”یہاں کامن ہال کیوں نہیں ہے! ہمیں صرف اتوار کو باہر جانے کی اجازت کیوں ہے! جب اتوار کو بینک نہیں کھلتے، ڈاکٹر نہیں ملتے تو اتوار کی اجازت کا کیا مطلب؟“ وہ کہتی ہیں کہ یہ ہمارا بنیادی حق ہے جسے آپ کو دینا ہی ہوگا ورنہ ہم مہم شروع کریں گے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں ایسا کبھی کبھی ہوتا ہے جب اے ایم یو کیمپس کے صدر سے زیادہ عبداللہ گرلز کالج کی صدر موضوع بحث بنے۔ اے ایم یو کے نئے صدر مشکور عثمانی ہیں اور وہ دربھنگہ کے رہنے والے ہیں، لیکن سب کی زبان پر جو نام ہے وہ گرلز کالج کی صدر نبا نسیم کا ہے۔ سماجی کارکن اور ڈبیٹر نبا پالیٹکل سائنس کی طالبہ ہیں۔ حتیٰ کہ بارہویں تک وہ پی سی ایم میں الجھی رہیں لیکن نبا نسیم کے مطابق وہ سیاست میں نام پیدا کرنے کے لیے ہی بنی ہیں۔ اس بات کا احساس انھوں نے فائنل ایڈریسنگ والے دن بھی کرایا جب انھوں نے کہا تھا کہ ”میرا بیلٹ نمبر 2 ہے“، اس پر پورا آڈیٹوریم چیخ پڑا کہ ”نہیں 1 ہے۔“ نبا ہنستی ہوئی بتاتی ہیں کہ ”میں دیکھنا چاہتی تھی کہ میرا بیلٹ نمبر کتنے لوگوں کو پتہ ہے۔“ نبا عبداللہ کالج کی تاریخ کی سب سے کم عمر کی صدر بھی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ ”ابھی 18 سال کی ہوئی ہوں اور اس دن کا بہت شدت کے ساتھ انتظار کر رہی تھی۔ جس دن کالج میں آئی تھی اسی دن طے کر لیا تھا کہ صدر بننا ہے۔ اب انشاءاللہ ممبر اسمبلی یا ممبر پارلیمنٹ بننے کا نمبر ہے۔“
واضح رہے کہ نبا نسیم کالج سے باہر کئی طرح کی تحریکوں اور مظاہروں میں شامل ہوتی رہی ہیں۔ ان کی فیس بک پروفائل پر گوری لنکیش کی تصویر لگی ہوئی ہے جس سے ان کی بیدار مغزی اور ذہنی رجحان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ظلم اور بربریت کے خلاف صدا بلند کرنے کا مادّہ رکھنے والی نبا کہتی ہیں ”اب چاہے جو ہو جائے ہم آواز ضرور اٹھائیں گے۔“ کشمیر کی صورت حال پر واضح رائے پیش کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ”عجیب معاملہ ہے کہ زمین تو اپنی ہے لیکن لوگ نہیں۔“ نبا نسیم اپنی باتوں کو سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کے سامنے خوب رکھتی ہیں۔ وہاٹس ایپ کا بھی خوب استعمال کرتی ہیں۔ ان کے وہاٹس ایپ اسٹیٹس پر ’آئی سپورٹ روہنگیا‘ لکھا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں نبا کہتی ہیں کہ ”میں دلتوں پر ہو رہے مظالم کی شدت کے ساتھ مخالفت کرتی ہوں۔ میں ان کے لیے آواز اٹھانا چاہتی ہیں اور اس معاملے میں مجھے اندرا گاندھی، عائشہ قذافی اور کونڈولیزا رائس کا مکسر بننا ہے۔“
جہاں تک نبا نسیم کے صدر منتخب کیے جانے کا معاملہ ہے، انھوں نے نیہا کرمانی کو شکست فاش دیا ہے۔ 21 سالہ نیہا 2015 سے اے ایم یو میں ہیں۔ وہ بہت اچھی شخصیت کی ملکہ ہیں اور ان کی آواز میں شیرینی ہے، لیکن طالبات کو جارحانہ اور انقلابی انداز اختیار کرنے والی نبا زیادہ پسند آئیں۔ عبداللہ گرلز کالج میں تقریباً 3000 لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ نبا سیکنڈ ائیر کی طالبہ ہیں۔ وہ ماڈرن ہسٹری بھی پڑھتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ”مجھے تو بس سیاست کرنی ہے۔ ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے اور اس عمل میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہوں۔“
نبا نسیم نے بائک کے ذریعہ اپنے لیے تشہیری مہم چلا کر پہلے ہی ظاہر کر دیا کہ وہ حوصلہ اور ہمت کی پیکر ہیں۔ جب لڑکیوں کا ہجوم بائک پر ’پریزیڈنٹ شپ فار نبا‘ لکھا ہوا بینر لے کر نکلتی تھیں تو سڑکوں پر لوگ انھیں راستہ دیتے ہوئے نظر آتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔ دراصل نبا ’ڈر کے آگے جیت ہے‘ والی تھیوری پر کام کرتی ہیں۔ ان کی روم میٹ یعنی دوست زیبا حبیب بتاتی ہیں کہ ”اس لڑکی میں ہمت ہے، اس میں کچھ کر گزرنے کا مادہ ہے۔“
گزشتہ جمعہ نبا نے صدارتی عہدے کی حلف برادری کر لی اور اب وہ اپنا فون خود نہیں اٹھاتی ہیں۔ کئی کوششوں کے بعد ان سے بات ہو پاتی ہے۔ ان کی دوست عمیمہ زہرا کہتی ہیں کہ ”یہ ضرور سب سے کم عمر کی ممبر اسمبلی بنے گی۔ اس میں ہر طرح کی خوبیاں موجود ہیں جو اسے کامیابی کی طرف گامزن کر رہی ہے۔“ صدر عہدہ پر فائز ہوئے نبا کو ابھی زیادہ دن بھی نہیں ہوئے ہیں اور وہ چیختے ہوئے مینجمنٹ سے سوال کر رہی ہے کہ ہاسٹل کے لیے 25 لاکھ کا جو فنڈ ہے اس کا کیا ہوا! ہاسٹل کی لڑکیاں نبا نسیم کی اس ادا پر فدا ہیں۔ لیکن نبا کے لیے یہ سب نیا نہیں ہے، وہ تو بچپن سے ہی مضبوط ارادوں کی ملکہ رہی ہیں۔ کم عمری میں ہی اپنے نام کے ساتھ نبا نے اپنی ماں کا نام جوڑ لیا تھا جو کہ شائستہ تھا، یعنی وہ نبا شائستہ کہلاتی تھیں۔ نبا ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”میرے اندر کی یہ طاقت میری ماں کی عطا کردہ ہے۔“
بہر حال، اعظم گڑھ میں پیدا ہوئی اور لکھنو¿ میں پلی بڑھی نبا کی ایک بات کوئی نہیں بھول پا رہا ہے اور وہ ہے فتحیابی کے بعد جلوس میں ان کے ہاتھ اٹھا کر سلام کرنے کا انداز۔ عبداللہ گرلز کالج کا یہ انتخاب ’جدیدیت بنام روایات‘ کی شکل میں دیکھا گیا تھا اور نبا کے مطابق یہ ’خواتین کی خود مختاری‘ کی طرف ایک بڑا قدم اور بہترین کامیابی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔