مظفر نگر: موب لنچنگ کے شکار زاہد کے گھر ماتم، بیوی بچے بدحواس
گزشتہ تین دن سے سنبھل ہیڑا میں بے چینی کا عالم ہے۔ یہاں نوجوانوں کے اندر عجیب سا خوف ہے۔ خوف اتنا زیادہ ہے کہ وہ باہر پھیری لگانے کا کام آج ہی سے چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
مظفر نگر سے بجنور جانے والی سڑک پر جانسٹھ سے 5 کلو میٹر دور 12 ہزار کی مسلم آبادی والے سنبھل ہیڑا گاؤں میں تین دن سے ماتم ہے۔ پورے گاؤں کا ’دوست‘ کہے جانے والے تین بچوں کے والد زاہد کو تریپورہ میں بچہ چوری کی افواہ کے بعد مار دیا گیا۔ اتوار کی صبح انھیں دفنایا گیا جس میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔
تریپورہ کی راجدھانی اگرتلہ سے 25 کلو میٹر دور سیدھائی موہن پور نام کے گاؤں میں 28 جون کو صبح 10 بجے یہ حادثہ ہوا تھا۔ سنبھل ہیڑا کے لوگ اسے حکومت کے ذریعہ پالے گئے غنڈوں کی طرف سے کیا گیا قتل مانتے ہیں۔ جمعہ کی صبح 10 بجے 39 سالہ زاہد سدھائی موہن پور میں اگرتلہ سے پھیری کرنے گئے تھے۔ ایک مقامی ڈرائیور سوپان میاں کے ساتھ اپنی کرائے کی گاڑی میں انھوں نے کپڑے اور چھوٹے الیکٹرانک سامان بھرے ہوئے تھے۔ سیدھائی موہن پور گاؤں میں بچہ چوری کی افواہ کے بعد انھیں ہزاروں کی بھیڑ نے گھیر لیا اور بری طرح پیٹا۔ اس کے بعد پولس نے انھیں بچانے کی کوشش کی اور چوکی میں بند کر دیا گیا۔ لیکن پولس کے 5 سپاہی کم پڑ گئے اور بھیڑ نے زاہد کو پولس کے قبضے سے چھوڑا کر مار دیا۔ ان کو بری طرح پیٹا گیا اور سر میں بھاری سامان سے چوٹ پہنچائی گئی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زاہد کی موت سر میں لگی چوٹ سے ہوئی ہے۔ اگرتلہ کے ایس پی اجیت پرتاپ سنگھ کے مطابق ’’افواہ پوری طرح سے جھوٹی تھی۔ یہ افواہ کیسے پھیلائی گئی اس کی ہم جانچ کر رہے ہیں۔ بھیڑ بہت مشتعل ہو گئی تھی۔ اس میں ہمارے تین پولس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔‘‘ ایس پی کے مطابق لوگوں میں افواہ پھیلائی گئی کہ ایک گروہ بچہ چوری کر کے ان کا گردہ نکال کر فروخت کر رہا ہے۔
زاہد گزشتہ 12 سال سے لگاتار کرایے پر اگرتلہ میں ہی مقیم تھے۔ وہاں کے مقامی لوگ ان سے اچھی طرح آشنا تھے۔ وہ تہوار اور شادی پر اپنے گاؤں آتے رہتے تھے۔ ان کے تینوں بچے اور بیوی مظفر نگر کے سنبھل ہیڑا گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ زاہد کے پانچ بھائی بھی ہیں۔ زاہد کی گاؤں میں اچھی مقبولیت ہے۔ وہ لوگوں کے غموں میں شریک ہوتے تھے۔ انھیں لیڈروں اور افسروں کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا شوق تھا۔ ان کے بھائی جاوید ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’وہ چاہتے تھے کہ اس کا نام بڑے بڑے اخباروں میں چھپے۔ اب موت کے بعد یہی ہو رہا ہے۔ وہ غریبوں کے مددگار تھے۔ اب ان کے بچے خود محتاج ہو گئے ہیں۔‘‘
اگرتلہ میں زاہد کی لاش کو ان کے مکان مالک یوسف کے سپرد کیا گیا تھا۔ یوسف نے بتایا کہ ’’زاہد بہت ملنسار تھے۔ جب پولس نے بتایا کہ انھیں بھیڑ نے بچہ چور بتا کر مار دیا ہے تو میں بری طرح صدمے میں آ گیا۔ زاہد 10 سال سے میرے کرایہ دار تھے۔ ان کی فیملی سے بھی میں ملا ہوں۔ ان کا کبھی کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ وہ یہاں پھیری لگا کر پیسہ کماتے تھے۔ اس بار ان کا مال زیادہ فروخت نہیں ہوا تو وہ عید پر بھی اپنے گھر نہیں گئے۔ ان کا قتل جھوٹی افواہ پھیلا کر کیا گیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’زاہد کی لاش کے گھر پہنچتے ہی ایک ہزار سے زیادہ لوگ افسوس ظاہر کرنے گھر آ گئے۔ زاہد نے یہاں بھی اچھے دوست بنائے تھے۔‘‘
زاہد اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا۔ سنبھل ہیڑا میں 10ویں میں پڑھ رہی اس کی 14 سالہ بیٹی مسکان بتاتی ہے ’’پاپا نے آخری بار بدھ کو بات کی تھی اور مجھے پڑھائی پر خوب دھیان دینے کے لیے کہا تھا۔ وہ یہاں رہ کر اتنا پیسہ کما سکتے تھے کہ ہم بھوکے نہ رہیں، لیکن ہم لوگوں سے دور رہ کر اس لیے کما رہے تھے کہ ہم پڑھ سکیں۔‘‘
تریپورہ میں گزشتہ 24 گھنٹے میں بچہ چوری کی افواہ کے بعد 3 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ یہاں کے وزیر اعلیٰ وپلب دیب نے اس طرح کی افواہ پر افسوس ظاہر کیا اور اس کو اپوزیشن پارٹی کی کارستانی قرار دیا۔ تریپورہ کے ڈی جی پی اے کے شکلا کے مطابق پورے تریپورہ کی انٹرنیٹ خدمات 24 گھنٹے کے لیے بند کر دی گئیں۔
قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں مارچ میں تریپورہ میں بڑی سیاسی تبدیلی ہوئی ہے۔ وہاں پہلی بار بی جے پی کی حکومت بنی ہے۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی وہاں تشہیر کرنے گئے تھے۔ وہاں بڑی تعداد میں ناتھ کمیونٹی کے لوگ رہتے ہیں جو گورکھ ناتھ مندر کو اپنی پوجا کا مرکز مانتے ہیں۔
بہر حال، زاہد کے تین بچے یتیم ہو چکے ہیں اور ان کے کئی خواب کچلے جا چکے ہیں۔ زاہد کا 10 سالہ بیٹا سمیع کہتا ہے کہ ’’اس بار پاپا عید پر گھر نہیں آئے تھے لیکن انھوں نے ویڈیو کالنگ کی تھی اور ہم سب سے الگ الگ بات کی۔ عید پر ہمارے بنائے ہوئے کپڑے دیکھے۔‘‘
بدحواسی میں 15 سال کا زاہد کا سب سے بڑا بیٹا چاند کہتا ہے ’’اب وہ کبھی نہیں آئیں گے۔‘‘ سنبھل ہیڑا میں زاہد کے گھر پر ابھی سیمنٹ والا کچا پلاسٹر ہے۔ اس بار امید تھی کہ وہ پیسہ کما کر لائیں گے تو اس پر پینٹ کرا لیں گے۔ زاہد کے دو بھائی بھی اس کے ساتھ اگرتلہ میں ہی پھیری لگانے کا کام کرتے تھے، مگر عید پر وہ واپس آ گئے تھے۔ ان کے ایک بھائی جاوید کہتے ہیں ’’ان کا تھوڑا سا مال بیچنے کے لیے بچا ہوا تھا، انھوں نے کہا تھا کہ وہ اسے فروخت کر کے آئیں گے۔ اب ان کی لاش آئی ہے۔‘‘
زاہد کے گھر کے باہر ایک درجن سے زیادہ لوگ فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انھیں زاہد کی موت، اپنے مستقبل اور کاروبار کے تئیں فکر ہے۔ 68 سال کے عزیز احمد کہتے ہیں ’’اس گاؤں کے تقریباً 300 لڑکے گھر سے باہر پھیری لگانے کا کام کرتے ہیں۔ زاہد کی موت کے بعد 80 فیصد تو لوٹ آئے، دیگر بھی لوٹ آئیں گے۔ وہ سب مسلمان ہیں۔ اس طرح سے حملے ہوں گے تو لوگ کنکڑ-پتھر کھائیں گے یا گھروں میں قید رہیں گے۔‘‘
گزشتہ تین دن سے سنبھل ہیڑا میں بے چینی کا عالم ہے۔ یہاں نوجوانوں کے اندر عجیب سا خوف دیکھنے کو مل رہا ہے۔ محمد شاہد کہتے ہیں کہ وہ باہر پھیری لگانے کا کام آج ہی سے چھوڑ رہے ہیں۔ ان کی فیملی کے لوگ بری طرح ڈر گئے ہیں۔ وہ مزدوری کر لیں گے لیکن اتنی دور کمانے نہیں جائیں گے۔
زاہد کی بیوی خوشنما اب عدت میں ہیں۔ یہ عید وہ ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ زاہد کا بھائی سلمان ہمیں ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ دکھاتا ہے۔ آخر میں سلمان کہتا ہے ’’اب گاؤں میں ہی کوئی کام تلاش کریں گے۔ باہر جانے سے ڈر لگنے لگا ہے۔ پتہ نہیں کون سا جھوٹ ہمارا قاتل بن جائے۔‘‘
گزشتہ سال جھارکھنڈ کے شوبھا پور میں بچہ چوری کی افواہ کے بعد پیٹ پیٹ کر 6 لوگوں کا قتل کر دیا گیا تھا۔ وہاں بھی بچہ چوری کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ عید سے دو دن بعد پلکھوا میں گائے کے نام پر پیٹ پیٹ کر ایک 50 سالہ شخص کو مار دیا گیا۔ وہاں بھی قتل کی جانچ ہوئی تو افواہ کی بات سامنے آئی۔ خاص بات یہ ہے کہ گئوکشی یا بچہ چوری کے افواہوں میں مرنے والے زیادہ تر لوگ اقلیتی طبقہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ایسے واقعات بھی بی جے پی حکمراں ریاستوں میں زیادہ پیش آئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔