’سرکاری صحت خدمات کے استفادہ میں مسلمان دوسروں سے پیچھے‘
پروفیسر کنڈو نے کہا کہ عالمی انڈیکس میں ترقی کے علاوہ مساوات کو بھی پیمانہ بناکر جانچا جاتا ہے۔ جہاں ہندوستان کا رینک بنگلہ دیش سے بہتر ہوسکتا تھا وہیں مساوات کی کمی کے باعث یہ رینک نیچے چلا گیا۔
حیدرآباد: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ایک راؤنڈ ٹیبل کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوران اپنے خیالات کا اظہار ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر امیتابھ کنڈو، صدر نشین، مابعد سچر تنقیدی کمیٹی نے کہا ’’آمدنی، صحت اور تعلیم میں عوامی مساوات ناگزیر ہیں۔ مسلمانوں کی دیہی سطح پر آمدنی ایس سی اور ایس ٹی سے بہتر ہے جبکہ اوسط آمدنی سے کم ہے۔ شہری سطح پر یہ ایس سی و ایس ٹی سے بھی کم ہے۔ عوامی صحت خدمات کے حصول میں مسلمان دیگر طبقات کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔ جبکہ صحت کے معاملے میں مسلمانوں کا اوسط بہتر ہے اور خواتین کا استحصال بھی دیگر طبقات کے مقابلے کم ہے۔ ہائر سکنڈری تعلیم میں مسلم طلبہ کا اسکول چھوڑنا ایس سی، ایس ٹی سے زیادہ ہے۔ جبکہ یہ پرائمری سطح پر ایس سی اور ایس ٹی کے برابر ہے۔‘‘ یونیورسٹی میں اس راؤنڈ ٹیبل کا انعقاد ’تعلیمی پالیسی راؤنڈ ٹیبل: تعلیمی معیار، این ای پی اور نظر انداز کردہ عوام‘ کے زیر عنوان سے کیا گیا تھا۔
پروفیسر کنڈو نے کہا کہ عالمی انڈیکس میں ترقی کے علاوہ مساوات کو بھی پیمانہ بناکر ملکوں کو جانچا جاتا ہے۔ جہاں ہندوستان کا رینک بنگلہ دیش سے بہتر ہوسکتا تھا وہیں مساوات کی کمی کے باعث یہ رینک نیچے چلا گیا۔ جب تک ہم عوام میں مساوات کو فروغ نہیں دیں گے تب تک ملک قابل قدر مقام حاصل نہیں کرسکتا اور ملک کی ترقی کے لیے اپنائی گئی اہم ترین اسکیمیں جیسے میک ان انڈیا وغیرہ کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
پروفیسر عبدالشعبان، اسکول آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسس، ممبئی نے کہا کہ جب تک اردو والے فلاسفر تیار نہیں کریں گے ان کے تعلیمی حالات سدھرنا مشکل ہے۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہمارے عصری اسکول کس طرح کے ہوں۔ ان کے نصاب اور تعلیم پر توجہ دینی ہے۔ انہوں نے زبانوں کی ترقی کے لیے دو امور کی نشاندہی کی۔ ایک ریاستی سرپرستی، دوسرے بازار کی ضرورت۔ انہوں نے مہاراشٹرا کے اردو مدارس پر اپنی تحقیق کی روشنی میں کہا کہ مہاراشٹرا میں دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اردو میڈیم اسکولس ہیں۔ لیکن ان کے حالات کافی ناگفتہ بہ ہیں۔ کئی اسکولوں میں صرف ایک ٹیچر ہے۔ جب اس سلسلے میں انتظامیہ سے رجوع کیا گیا تو بتایا گیا کہ تحفظات کے تحت موجود نشستوں پر اردو والے دستیاب نہیں ہیں۔ بارہویں تک آتے آتے 90 فیصد اردو میڈیم طلبہ ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے اس میں سے 20 فیصد انگریزی یا دیگر میڈیم میں چلے جاتے ہوں۔ پھر بھی 70 فیصد طلبہ تعلیم ترک کرتے ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، انچارج وائس چانسلر نے کہا کہ ہندوستان کا دستور سب سے اچھا ہے۔ کیونکہ اس میں مساوات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ اگر ہم مختلف سطحوں پر بہتر مظاہرہ نہیں کرپا رہے ہیں تو یہ ہماری خامی ہے۔ انہوں نے قومی تعلیمی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ہمہ موضوعاتی تعلیم اور مہارتوں پر توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نصاب کی تدوین کے وقت مارکٹ سے جڑے افراد کو مدعو کرتے ہوئے ان کی رائے کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ مضمون کے ساتھ طلبہ اس کے ذریعہ روزگار بھی حاصل کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ بنا تیاری کے کلاس میں نہ جائیں۔ وہی استاد بہتر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو اپنے مضمون کا طالب علم بناکر رکھے اور اس میں ہو رہی نئی نئی تبدیلیوں سے واقف ہو۔ انہوں نے برائے نام تحقیق سے گریز کا مشورہ دیا۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے تعلیمی نظام کی کامیابی کو ملک کی کامیابی قرار دیا۔ پروفیسر عامر اللہ خان نے نظامت کے دوران اسپیکرس سے تعلیمی پالیسی کے متعلق دلچسپ سوالات کیے۔ انہوں نے دوران نظامت کہا کہ تلنگانہ میں اقلیتوں کا بجٹ تو آرہا ہے لیکن اس کا مناسب استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بجٹ ان اموپر خرچ کیا جا رہا ہے جن پر مسلم سماج کو کرنا چاہیے۔ اقلیتی بجٹ کا استعمال ان کے لیے اسکالر شپس و انفراسٹرکچر تعمیر کرنے پر کیا جانا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔