طلاقِ ثلاثہ بل کے خلاف مسلم خواتین کا احتجاج
راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں کم و بیش سات ہزار مسلم خواتین نے جمع ہو کر مودی حکومت کے ذریعہ پیش کردہ طلاقِ ثلاثہ بل کو اسلامی شریعت کے خلاف اور ناقابل قبول قرار دیا۔
’’بیک وقت تین طلاق کو غلط ماننے پر سبھی متفق ہیں، کوئی مسلک اس کو مناسب نہیں ٹھہراتا۔ لیکن سبھی مسلک اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ اگر تین طلاق دیا گیا تو طلاق ہو جائے گا، اختلاف تو اس بات پر ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے پر ایک طلاق ہو یا تین طلاق۔ جس مسئلے پر پوری امت متفق ہو اس کے خلاف حکومت کوئی بل کیسے پیش کر سکتی ہے۔ یہ قانون کسی بھی لحاظ سے عورتوں کے حق میں ہے ہی نہیں۔ یہ تو شوہر کو جیل بھیجنے اور بیوی کو بے سہارا چھوڑ دینے کا راستہ دکھاتی ہے۔‘‘ یہ بیان امیر جماعت اسلامی ہند جلال الدین عمری کا ہے جنھوں نے کم و بیش سات ہزار خواتین کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ پر مرکزی حکومت کے ذریعہ پیش کردہ بل کی سخت الفاظ میں تنقید کی۔
امیر جماعت اسلامی ہند نے طلاق ثلاثہ بل کو اسلامی شریعت کے منافی تو قرار دیا ہی، بل بنانے والوں کی سمجھ پر بھی حیرانی ظاہر کی اور کہا کہ ’’پیش کردہ بل کے مطابق تین طلاق کے باوجود طلاق نہیں ہوگا اور شوہر کو تین سال کی سزا دی جائے گی۔ عجیب کیفیت ہے کہ شوہر کی بات کو کوئی وزن بھی نہیں دیا جا رہا اور اسے سزا بھی دی جا رہی ہے، اور وہ بھی تین سال کی سزا جو ڈاکوؤں، چوروں اور زانیوں کو دی جاتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ذرا آپ یہ سوچیے کہ جس شوہر کو تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا اور اگر وہ زندہ رہا اور واپس آ گیا تو اس کی بیوی سے اس کے تعلقات کیسے ہوں گے؟ دونوں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ساتھ رہنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ اس طرح کا قانون کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اس قانون کی تو کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔‘‘
راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں آج صبح 10 بجے اسلامی شریعت کو تحفظ فراہم کرنے یعنی تین طلاق بل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے خواتین کو مدعو کیا گیا تھا اور دہلی کے مساجد میں مرد حضرات سے بھی درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنی خواتین کو رام لیلا میدان بھیجیں۔ اس درخواست اور دعوت نامہ کا اثر رام لیلا میدان میں خوب دیکھنے کو ملا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (خاتون وِنگ) کی سربراہ ڈاکٹر عاصمہ زہرا کی صدارت میں احتجاجی جلسہ منعقد ہوا اور مسلم پرسنل لاء بورڈ و دیگر مسلم تنظیموں سے تعلق رکھنے والی حساس خواتین کے ساتھ ساتھ مشہور و معروف مرد حضرات نے بھی مجمع سے خطاب کیا۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکن عطیہ صدیقہ نے کہا کہ ’’اسلام کا قانون ہر لحاظ سے مکمل ہے اور جو اس کی تنقید کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ غیر جانبداری کے ساتھ اس پر غور کریں۔ طلاق ثلاثہ بل اسلامی شریعت کو بدلنے کی کوشش ہے جو ناقابل قبول ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے جلسہ میں موجود خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سے کچھ غلطیاں ہو رہی ہیں، ہمیں لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے، اسلامی شریعت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے سامنے اسلامی نظامِ عمل پر عمل پیرا ہو کر اس کی خوبیوں سے انھیں روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔‘‘
لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکن آمنہ رضوان نے جلسہ میں موجود خواتین سے بل کی خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’یہ ظالم حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا سیاہ بل ہے۔ اس قانون سے تو بہتر یہ ہے کہ ایک نشست میں تین طلاق ہو جائے کیونکہ ہم عدت پوری کر کے دوسری شادی تو کر سکتے ہیں۔ لیکن اس سیاہ بل کے مطابق شوہر کو سزا ملے گی اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ رہنا پڑے گا۔‘‘ ایک دیگر خاتون مقرر نے تین طلاق کے مسئلہ کو مودی حکومت کے ذریعہ بلاوجہ اٹھایا جانے والا ایشو قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’مسلم خواتین اپنے گھروں میں محفوظ ہیں، ان کے لیے حکومت کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں میں طلاق کا معاملہ بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اس لیے یہ مسلم سماج کے لیے کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر مذاکرہ و مباحثہ کی ضرورت پڑے۔ یہ نہ ہی مسلم سماج کے لیے بڑا مسئلہ ہے اور نہ ہی ہندوستان کا مسئلہ۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ بڑے مسائل کی طرف توجہ دے مثلاً عورتوں و بچیوں کے ساتھ عصمت دری کے بڑھتے واقعات اور غیر مسلم گھرانوں میں شراب کے نشے میں خواتین پر ہونے والے مظالم وغیرہ۔‘‘
یہ بھی پڑھیں پرسنل لاء بورڈ کی بے حسی نے خاتون خانہ کو شمع محفل بنا دیا!
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا ابو طالب رحمانی کی تقریر کئی معنوں میں انتہائی اہم قرار دی جا سکتی ہے۔ انھوں نے مودی حکومت کی تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا پر صداقت کو پردہ میں رکھنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ’’چند فرضی عورتیں لڈو کھلاتی ہیں تو میڈیا کو نظر آ جاتا ہے اور پورے ہندوستان میں تقریباً 200 تقریبات منعقد ہوتے ہیں اور ہماری لاکھوں بہنیں احتجاج کرتی ہیں تو انھیں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ آور ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’محترم وزیر اعظم خود کو مسلم خواتین کا بھائی بتاتے ہیں لیکن بھائی بننے کی ان کی پالیسی بھی بہت دلچسپ ہے۔ وہ جنید کی ماں کے بھائی نہیں بنتے، وہ نجیب کی بہن کے بھائی نہیں بنتے، وہ افروزل کی بیوی یا بیٹی کے بھی بھائی نہیں بنتے، وہ کسی بھی مقتول و مظلوم مسلم کی بہنوں اور ماؤں کے بھائی نہیں بنتے، لیکن یہ ہر اس عورت کے بغل میں جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ شوہر سے رشتہ ٹھیک نہیں چل رہا۔ وہ اس کا بھائی ہونے کا دَم بھرتے ہیں۔‘‘
مولانا طالب رحمانی نے طلاق ثلاثہ بل کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کرنے والی اور راجدھانی دہلی کے رام لیلا میدان میں جمع ہوئی خواتین کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ باحیا بیٹیاں جو گھروں سے بے وجہ نکلنا پسند نہیں کرتیں، یہ باپردہ مائیں اور بہنیں جو اسلامی شریعت پر کاربند رہتے ہوئے بغیر نقاب کسی کے سامنے نہیں جاتیں، آج شریعت محمدی کو بچانے کے لیے اس تاریخی میدان میں جمع ہوئی ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’یہ ایسی خواتین ہیں جو بھوک برداشت کر لیں گی لیکن اپنے دوپٹے اور آنچل کا سودا کبھی برداشت نہیں کریں گی۔‘‘ مولانا رحمانی نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’وزیر اعظم ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ کو بدلتے ہیں تو ہم کچھ نہیں کہتے لیکن اسلامی شریعت کوئی ہزار یا پانچ سو کا نوٹ نہیں ہے جس کو بدلنے کی کوشش کی جائے اور ہم خاموش رہ جائیں۔‘‘
طلاق ثلاثہ بل کے خلاف مسلم خواتین کے اس احتجاج میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکن ممدوحہ صاحبہ، مرکز جمعیت اہل حدیث کے نمائندہ شیث ادریس تیمی، سیاسی لیڈر شعیب اقبال و آلِ محمد اور کئی مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین نے اپنی باتیں رکھیں اور کسی بھی حال میں اسلامی شریعت میں مداخلت کو ناقابل قبول قرار دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Apr 2018, 9:03 PM