’مسلم تنظیمیں قدرتی آفات اور فسادات کے دوران ہندوؤں کی باز آبادکاری پر بھی توجہ دیں‘
مہاراشٹر کے سابق آئی جی عبدالرحمان نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی پسماندہ ہیں بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی پسماندگی کے شکار ہیں۔
نئی دہلی/فاربس گنج: مسلمانوں اور مسلم تنظیموں سے مصیبت اور قدرتی آفات یا فسادات کے دوران مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی یکساں باز آبادکاری پر زور دیتے ہوئے مہاراشٹر کے سابق آئی جی عبدالرحمان نے کہا کہ اس سے دونوں فرقوں کے درمیان پلنے والی منافرت میں کمی آئے گی۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ دنوں ناگرک ادھیکار منچ فاربس گنج کے زیراہتمام ’اقلیتوں کے مسائل اور حل‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کلیدی خطاب میں کہا کہ جب کہیں بھی فسادات، قدرتی آفات یا مصیبت آتی ہے تو مسلم تنظیمیں باز آبادکاری کے کام میں حصہ لیتی ہیں اور بلاتفریق مذہب کام کرتی ہیں لیکن اس میں شدت کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور اگر کسی مسلمان کی باز آبادکاری کی جا رہی ہے تو پڑوسی ہندو اگر متاثر ہوا ہے تو اس کی بھی باز آبادکاری کریں اس سے معاشرے میں پھیلے نفرت کے زہر میں کمی آئے گی اور فرقہ پرستوں کو دنداں شکن جواب ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی پسماندہ ہیں بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی پسماندگی کے شکار ہیں۔
عبدالرحمان نے مسلمانوں کی پسماندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 1947 جب ملک آزاد ہوا اور بدقسمتی سے ملک تقسیم ہوا اور اس کا اثر یہاں رہنے والے مسلمانوں پر، ان کی جائداد پر پڑا اور اس پر 1980 کے درمیان گوپال پینل رپورٹ اندراگاندھی کے زمانہ میں آئی اس میں اتنے خراب حالات تھے کہ وہ رپورٹ شائع نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہے اگر حکومت نے انہیں مین اسٹریم میں نہیں لائی تو یہ نئے دلت کہلائیں گے۔ اس پر لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے2007 میں رنگناتھ مشرا کمیشن کی تشکیل ہوئی۔ اس کمیشن نے کہا کہ مسلمانوں کے حالات سماجی اور اقتصادی اعتبار سے بہت خراب ہیں 15 فیصد ریزرویشن کو اقلیت کو دیا جائے اور اس میں دس فیصد مسلمانوں کو دیا جائے۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں میں جو دلت ہیں اس کو دلت کا درجہ دیا جائے اور جو قبائیلی ہیں اس کی مردم شماری کرائیں۔
انہوں نے بابائے قوم مہاتماگاندھی کے حوالہ سے کہا کہ اگر کسی ملک کو جانچنا ہو تو یہ دیکھا جائے کہ وہاں کی اقلیت کیسی ہے اور کس حال میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہندو سوسائٹی کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ وہاں مختلف طبقات مثلاً ایس سی ایس ٹی، نائی، بھومیہار، برہمن ہیں اسی طرح مسلم سماج بھی طبقہ میں بٹا ہوا ہے، فرق اتنا ہے کہ ہم اسلام کو مانتے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ 2014 سے جب سے یہ حکومت بنی ہے مسلمانوں کے ساتھ امتیاز بڑھ گیا ہے۔ موب لنچنگ کے شکار لوگوں کو کوئی انصاف نہیں ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ بولتے ہیں پاکستان چلے جاؤ، ان سے کہو کہ پہلے وہ ویزا لگوا دیں ہم پاکستان چلے جائیں گیا۔
روزنامہ ’انقلاب‘ پٹنہ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر احمد جاوید نے اپنے خطاب میں دعوی کیا کہ ملک انصاف اور جمہوریت کی راہ پہ جیسے ہی آگے بڑھتا ہے ایک طبقہ عداوت و منافرت کو ہوا دینے کے لئے پوری قوت سے لگ جاتا ہے اور یہ کوششیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی تاریخ میں چند ہی ڈوکیومنٹ ہیں جو تحریری ہیں جس میں میثاق مدینہ بھی ہے اور میثاق مدینہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیت کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا جانا قبیح فعل ہے مگر صرف اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو دہرانا مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ پوری قوت اور عزم کے ساتھ حالات سے مقابلہ کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے لئے از خود کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے تب جاکر اقلیت کے مسائل کا حل ہوسکے گا اس کے لئے چھوٹے موٹے کام سمیت ہراس کام کو کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہمارے لئے سرخروئی کی راہ ہموار ہوسکے۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے یو این آئی کے سینئر صحافی عابد انور نے کہا کہ کوئی بھی اصلاحی تحریک کی ابتداء گھر سے ہونی چاہیے اور اگر آپ معاشرہ کو درست کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ کو درست کریں، پھر گھر کو کریں اور پھر معاشرے کو بہتر ہونے کے لئے کہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپنا احتساب کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم اپنی خامیوں کا صدق دلی سے جائزہ نہیں لیں گے اس وقت تک کسی بھی معاملے میں ہمارا قدم صحیح جگہ پر نہیں پڑے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اپنی آمدنی کا 40 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کریں گے اور جب تک ایسا نہیں کریں گے ہمارے معاشرے سے ذہنی، تعلیمی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی پسماندگی دور نہیں ہوگی۔
صدارتی خطاب میں پروگرام کے کنوینر شاہجہاں شاد نے کہا کہ شمال مشرقی بہار کا یہ خطہ سیمانچل اقلیتی اکثریتی والا علاقہ ہے، لہذا اقلیت کے ساتھ بھید بھاؤ کے اثرات بھی یہاں زیادہ ہیں، انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے اقلیت کو پہلے کھڑا ہونا ہوگا اس کے بعد لوگ ساتھ آئیں گے۔اس کے علاوہ اظہار خیال کرنے والوں میں رضوان الحق، عبدالجبار ندوی، مفتی یعقوب ندوی، مولانا عبدالرشید قاسمی، غیاث الدین نعمانی اور مفتی محمد انصار قاسمی شامل تھے۔ قبل ازیں فیروز نعمانی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جبکہ نظامت کے فرائض مولانا عبدالرحمان قاسمی اور مولانا فارق مظہری کے اظہار تشکر کیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔