مسلمان، دلت اور پسماندہ طبقات بی جے پی سے سخت ناراض
لوگوں کا کہنا ہےکہ دلت، پسماندہ طبقات اورمسلمانوں کے درمیان زبردست اتحاد ہے، کیونکہ بی جے پی حکومت میں انکاؤنٹر سے لےکر دیگر تمام طرح کی کارروائیوں میں ان طبقات پر سب سے زیادہ مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ہیں۔
اتر پردیش میں طویل مدت سے ایک ایسے متبادل سیاسی اتحاد کی کوششیں جاری ہیں جو مرکز اور صوبہ کی ریاستی حکومت سے مقابلہ کر سکے۔ یہ کوششیں رفتہ رفتہ ہی صحیح پر زمین پر اثرانداز ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اتر پردیش میں ’رہائی منچ ‘ کی جانب سے نکالے جانے والے مارچ میں یہ اثر صاف نظر بھی آ رہا ہے۔ سماجی کارکنان اور انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ کا سیاسی متبادل کے طور پر کانگریس کا دامن تھامنا عام ہو چلا ہے۔ اس تمام صورت حال کا لب و لباب یہی ہے کہ بی جے پی حکومت کے خلاف زمین پر جو بے چینی ہے وہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو ’ ناکو ں چنے چبوا ‘سکتی ہے۔
اتر پردیش کے اعظم گڑھ اور اس سے ملحقہ قصبوں-گاؤں میں مسلمانوں ، دلتوں اور پسماندہ طبقات کی بےچینی صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ دلتوں میں جوغم و غصہ ہے وہ پہلے ’بھیم آرمی ‘ اور اب بی ایس پی کی بڑھتی مقبولیت کے طور پر ظاہر ہو رہی ہے۔ دراصل ایس سی -ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم، سپریم کورٹ کے فیصلے اور مرکزی حکومت کے ڈھلمل رویہ کے خلاف 2 اپریل کو دلتوں نے جو ’بھارت بند‘ بلایا تھا اس میں بڑے پیمانے پر دلتوں پر لاٹھی چارج ہوا اور بعد میں ان کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ۔ بند کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات رونما ہوئے ۔ دلتوں نے ان واقعات کو بی جے پی کے تئیں نفرت کا اظہار قرار دیا ۔ ان کے دل و دماغ سے ظلم و ستم کی یہ تصویر اب جلد دھندلی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ لہذا وہ زور شور سے اپنے لئے سیاسی متبادل کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔
’قومی آواز ‘نے اعظم گڑھ کے لاٹ دھار کے تروکا گاؤں کے بانکے لال یادو سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ ویسے تو وہ یادو ہیں لیکن انہیں دلتوں کا ساتھ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور تبھی سے وہ اس تحریک سے منسلک ہو گئے۔ جس طرح یو پی پولس نے دلتوں اور یادو طبقہ کے تعلیم یافتہ افراد کو نشانہ بنایا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کارروائی ذاتیات کی بنا پر کی گئی ہے جس کے سبب بی جے پی کے خلاف غم و غصہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔
اعظم گڑھ ضلع کے مہادیو نگر کی خواتین کا بھی یہی کہنا ہے کہ پولس نے انہیں بری طرح زد و کوب کیا جبکہ ان کے ساتھ مار پیٹ کرنے والے تمام پولس اہلکار مرد تھے۔
اعظم گڑھ کے پہاڑی پٹی گاؤں میں بھیم آرمی کی نوجوان قیادت بھی زمین پر سرگرم ہے اور ’رہائی منچ‘ کو حمایت دے رہی ہے۔ بھیم آرمی کا کافی دنوں سے یہ مطالبہ ہے کہ ان کے مقید رہنما چندرشیکھر راون کو آزاد کیا جائے ۔ بھیم آ رمی کے اعظم گڑھ ضلع کے سربراہ سنیل کمار راؤ نے بتایاکہ تقریباً ہر گاؤں میں ان کا نیٹورک ہے جو سیاسی طور پر بڑا فرق پیدا کرے گا۔
رہائی منچ کے راجیو یادو کا کہنا ہے کہ پوری پٹی میں دلت، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے بیچ زبردست اتحاد ہے، کیونکہ انکاؤنٹر سے لے کر دیگر تمام طرح کی کارروائیوں میں ان طبقات پر سب سے زیادہ مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ہیں۔ رہائی منچ کے غفران بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ اعظم گڑھ ضلع یوں تو مسلم طبقہ کے نوجوانوں کے خلاف پولس اور انتظامیہ کی کارروائیوں کے سبب سرخیوں میں رہتا ہے لیکن اب دلتوں، یادوؤں اور دیگر پسماندہ طبقات کو بھی پریشان کیا جا رہا ہے۔ اتر پردیش میں رہائی منچ کی یاترا کا مقصد مظلوموں کی آواز کو منظر عام پر لانا ہے۔
اتر پردیش کے پوروانچل کے کچھ علاقوں میں دلت، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کے خلاف جہاں بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے ، یہ یاترا وہاں سے نکالی جا رہی ہے۔ یاترا کے دوران متاثرین سے ملاقات کی جا رہی ہے اور ان کے سوالوں کو پریس کانفریس کے ذریعہ اٹھایا جارہا ہے۔
رہائی منچ کی یاترا سلطان پور سے چل کر جونپور، اعظم گڑھ، مئو، بلیا، غازی پور، وارانسی، بھدوہی ہوتے ہوئے الہٰ آباد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے بعد یہ یاترا پرتاپ گڑھ، رائے بریلی سے ہوتے ہوئے 5 ستمبر کو لکھنؤ پہنچے گی۔ اس دوران اتر پردیش کے سرگرم سماجی کارکن شاہنواز عالم، انل یادو، لکشمن پرساد، دنیش سنگھ اور منگل رام امبیڈکروادی نے کانگریس کا ہاتھ تھام لیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔