مراد آباد: لڑکی کرتی رہی فریاد لیکن پولس نے ’لو جہاد‘ قانون میں شوہر-دیور کو بھیجا جیل
لڑکا-لڑکی شادی کا رجسٹریشن کرانے رجسٹرار دفتر پہنچے تھے جہاں بجرنگ دل کارکنان نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ بعد ازاں پولس نے موقع پر پہنچ کر لڑکی کے شوہر راشد اور دیور سلیم کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
مرادآباد: ’لَو جہاد‘ قانون نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ یو پی کے مختلف اضلاع میں اس نئے قانون کے تحت اب تک چار مقدمات درج ہوئے ہیں۔ مرادآباد میں جو مقدمہ قائم ہوا ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ لڑکی پولس سے کہتی رہی کہ میں بالغ ہوں اور حمل سے ہوں اور پانچ مہینے پہلے اپنی مرضی سے شادی کی ہے مگر پولس نے ایک نہ سنی اور جبراً تبدیل مذہب کرانے کی دفعہ لگا کر اس کے شوہر اور دیور کو جیل روانہ کر دیا۔ اس دوران بجرنگ دل کارکنان پولس کی موجود گی میں لڑکی سے تیکھے سوال کرتے نظر آئے پر لڑکی لگاتار اس بات پر ڈٹی رہی کہ یہ شادی میری مرضی سے ہوئی ہے۔
پولس کی اس کارروائی سے اقلیتی طبقہ میں زبر دست خوف اور ناراضگی ہے۔ ایس پی دیہات ودیا ساگر مشرا خود اپنے بیان میں کہہ رہے ہیں کہ پہلی شکایت پر مقدمہ درج کر کارروائی کر دی ہے۔ لڑکی کی عمر اور اس کی شادی سے متعلق بیان کی جانچ شروع کر دی ہے جس پر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بہت سے معاملات میں پولس جانچ کا بہانا بنا کر وقت نکالتی ہے پر اس معاملہ میں گرفتاری پہلے اور جانچ بعد میں ہوگی اور یہ سب شدّت پسندوں کے دباؤ میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ شادی قانون بننے سے پہلے اور خود لڑکی کہہ رہی ہے کہ وہ بالغ ہے اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے پھر پولس کو اتنی جلدی کیا تھی کہ ملزمان بنا کر دو لوگوں کو جیل بھیجنے کی۔ پہلے کیوں اس معاملے کی جانچ نہیں کی گئی۔ آخر کار قانون کے رکھوالوں کی ایسی کیا مجبوری ہے۔
دو روز قبل پولس نے جبراً تبدیلی مذہب کی دفعات کے تحت اس قانون کے بننے کے بعد مرادآباد میں پہلا مقدمہ درج کیا ہے۔ دوشیزہ اور اس کا شوہر کانٹھ تحصیل کے نائب رجسٹرار دفتر میں شادی کا رجسٹریشن کرانے پہنچا تھا جس کی بھنک بجرنگ دل کے کارکنان کو لگی اور انہوں نے وہاں پہنچ کر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اطلاع پاکر پولس موقع پر ہونچی اور دوشیزہ و اس کے شوہر راشد اور اس کے دیور سلیم کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
راشد اپنے بہنوئی کی دوکان ہلدوانی واقع دوکان پر باربر کا کام کرتا ہے جب کہ یہ لڑکی جو بجنور کی رہنے والی ہے دہرہ دون میں پڑھائی کرنے کے ساتھ ساتھ بیوٹی پارلر میں بھی کام کر رہی تھی جہاں ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور بعد میں ان دونوں نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد راشد اس لڑکی کو اپنی رہاہش گاہ محلہ پٹا گنج کانٹھ لے آیا جہاں یہ گزشتہ پانچ ماہ سے اپنی شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے۔ کیونکہ معاملہ دو مذہبوں کا تھا اس لئے کسی نے ان کو مشورہ دیا کہ تم اپنے رشتہ کو رجسٹرڈ کرالو جس پر عمل در آمد کرتے ہوئے یہ دونوں شادی کا رجسٹریشن کرانے کانٹھ تحصیل گئے تھے جس کی بھنک کچھ شدت پسندوں کو ہوئی اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ پولس نے لڑکی کے والدین کو بجنور سے بلایا پر لڑکی نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا، جس کے بعد پولس نے لڑکی کو ناری نکیتن بھیج دیا۔ کچھ لوگوں نے یہ تشویش بھی ظاہر کی کہ آخر کار دوشیزہ کا 164 میں بیان کیوں نہیں کرایا۔ ’لو جہاد‘ معاملہ میں گرفتار راشد اور سلیم کے والد رضا علی تقریبات میں بینڈ بجانے کا کام کرتے ہیں اور اس وقت شہر سے باہر ہیں، گھر میں موجود ان دونوں کی والدہ اپنے بچوں کے غم میں نڈھال ہیں اور خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ ہمدردی تو دکھا رہے ہیں مگر خوف کے چلتے کوئی بھی ہماری مدد کو آگے نہیں آرہا ہے۔
راشد کی والدہ کا کہنا ہے کہ میرے بچے بے قصور ہیں اور جب میری بہو اپنی مرضی ظاہر کر رہی ہے تو پھر پولس کے ذریعہ اس طرح کی کارروائی کا کیا مقصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کراروائی سے انسانیت شرمسار ہوگی اور لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنے میں گریز کریں گے۔ جس کا نقصان پورے سماج کو ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Dec 2020, 6:11 PM