ممبئی فسادات: مظلومین کو انصاف دلانے کا مقدمہ التواء کا شکار
دسمبر 1992 اور جنوری 1993 میں دو دور کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں سری کرشنا کمیشن رپورٹ کے مقدمہ میں سپریم کورٹ میں سماعت التواء کا شکار ہوگئی ہے
ممبئی: بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے دسمبر 1992 اور جنوری 1993 میں دو دور کے خونریز فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں سری کرشنا کمیشن رپورٹ کے مقدمہ میں سپریم کورٹ میں سماعت التواء کا شکار ہوگئی ہے اور اس درمیان ایک عرض گزار ڈاکٹر عظیم الدین نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے اس عدالتی کوشش کو آگے بڑھایا جائے، کیونکہ فی الحال اس معاملہ میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اور مظلومین انصاف کے لئے ترس گئے ہیں جن میں رفیق ماپکر بھی شامل ہے، جوکہ وڈالا کی ہری مسجد میں نمازیوں پر ہونے والی اندھادھند پولس فائرنگ میں زخمی ہوگیا تھا۔ اور عدالت کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں۔ انہوں نے انسپکٹر نکھل کاپسے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور 2016 میں سیشن کورٹ نے مقدمہ خارج کردیا تھا۔
سپریم کورٹ کے گوشورے کے مطابق گزشتہ 12 فروری 2019 کو ہونے والی سماعت ہوئی اور جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس سنجے کشن کول اورجسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے سماعت کی اور آئندہ تاریخ مقررکی تھی تاکہ سماعت ہوسکے لیکن فریقین کی غیر حاضری کے نتیجے میں یکم اگست 2019 کو جسٹس بوبڑے، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس بی آر گوائی پر مشتمل بنچ کے روبروسماعت ہونا تھی لیکن پھر اس مقدمہ کو معطل کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی تفصیل پائی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ میں ایکشن کمیٹی فار ایمپلیمنٹ آف سری کرشنا رپورٹ نے 21 اگست 1998 کو رپورٹ کے نفاذ کے لیے مقدمہ دائر کیا اور ایک ماہ بعد 21ستمبر 1998 کو سپریم کورٹ نے اسے سماعت کے لیے منظورکرلیا، سول رٹ پٹیشن 527/1998 کی سماعت کا آغاز ہوا۔ دراصل مہاراشٹر حکومت نے فسادات کی تحقیقات کے لیے سری کرشنا کمیشن تشکیل کی تھی، لیکن آج دو دہائی گزر جانے کے باوجود کمیشن کی رپورٹ کو نافذ نہیں کیا گیا ہے اور متاثرین آج بھی انصاف سے محروم اور سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمہ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
امسال سپریم کورٹ میں گزشتہ 12 فروری 2019 کو ہونے والی سماعت ہوئی اور جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس سنجے کشن کول اورجسٹس دیپک گپتا کی بینچ نے سماعت کی اور آئندہ تاریخ مقررکی تھی، ایڈوکیٹ انیس سہروردی کے انتقال کے بعد شکیل احمد سید اور اعجاز مقبول صاحب پیروی کر رہے ہیں۔ جبکہ مذکورہ رٹ پٹیشن کے عرضی گزار میں ایکشن کمیٹی کے ساتھ ساتھ مولانا ظہیر عباس رضوی، فیاض احمد خان، مفتی عبدالرحمن ملی، اور ڈاکٹر ایم عظیم الدین شامل ہیں جوکہ ممبئی کی مختلف تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں۔ جبکہ فریق حکومت ہند کے محکمہ قانون وانصاف اور کمپنی امور کے سکریٹری اور حکومت مہاراشٹر کے چیف سکریٹری کو بنایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پہلے شیوسینا۔بی جے پی محاذ حکومت اور پھر کانگریس۔ این سی پی اتحاد سرکار نے اسے نافذ کرنے میں کوتاہی برتی تھی، جس کے بعد رپورٹ کو نافذ کرنے کے لیے ممبئی میں ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تاکہ رپورٹ کی سفارشات کو نافذ کرکے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا، لیکن 1999 میں کانگریس۔ این سی پی اتحاد نے چند چیزوں کو چھوڑ کر رپورٹ کو ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں دائر کردہ رٹ پٹیشن کی سماعت کا سلسلہ جاری ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مقدمہ کا اب کوئی پرسان حال نہیں ہے اور تاریخ پر تاریخ کا سلسلہ جاری ہے۔
گزشتہ فروری میں عدالت عظمیٰ نے فریقین کو چار ہفتے کا وقت دیا تھا، مگر اس کے بعد سماعت ہر تاریخ پر آگے بڑھ جاتی ہے۔ سری کرشنا کمیشن رپورٹ کو ایک غیر جانبدارانہ رپورٹ کہی جاتی ہے، جسٹس سری کرشنا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کمیشن کے سامنے جوثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان میں جوحیرانی فطرتاً پائی جاتی ہے۔ اس کی خواہش میں وہ ہرحال میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اختلاف کشمکش ہیجان اور رنگ ونسل اور مذہب پر بھی تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔
اس ملک سے برطانوی سامراج کو باہر نکالنے کے لیے ہندؤں اور مسلمانوں نے متحد ہوکر آپسی ملنساری کے ساتھ جدوجہد کی تھی۔ اس اتحاد واتفاق کو محمدعلی جناح کے ”دوقومی نظریہ“ نے تباہ وبرباد کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں سیاسی طور پر ملک کی تقسیم ہوگئی اور سرحد کے دونوں جانب لاکھوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دیگر فرقے کی اکثریت اور اثر ورسوخ رکھنے والے علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے ملک کی آزادی اور اس ہندوستانی آئین کو تسلیم کرلیا تھا، جس نے اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ رعایتیں بھی دی تھیں۔ ایک وقفہ کے ساتھ اقلیتی فرقہ کو دیئے جانے والے خصوصی اختیارات نے ان کی نفسیات پر گہرا اثر کرنا شروع کیا۔ ہندوؤں میں یہ خوف پایا جانے لگا کہ جلد ہی وہ اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس سوچ نے صورت حال کو کافی بگاڑ دیا اور ”ہم اور وہ “ کی نفسیات پنپنے لگی۔ اس کا سیاسی فائدہ مفاد پرستوں نے اٹھایا اور ہندوؤں کے ایک طبقہ نے متعدد مساجد کو آزاد کرانے کے لیے مہم شروع کردی، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مسلم دورحکومت میں انہیں مندر سے ہی مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا، اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جانے لگی تھی۔
ایک بار پھر ہندووادی (ہندؤں کی فرقہ پرست جماعتوں، تنظیموں) نے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کی تعمیر کرنے کی مہم شروع کردی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ہے۔ دوسری جانب ظاہر سی بات تھی کہ مسلمان ایک انچ زمین دینا نہیں چاہتے ہیں۔ اس تنازعہ نے اس وقت سنگین رخ اختیار کرلیا، جب عدلیہ کی جانب سے مقدمہ میں کافی تاخیر ہوگئی اور سیاسی مفاد کے لیے اس معاملہ کو ایک نیا رخ 90 کی دہائی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے دیا اور اس کے سربراہ ایل کے اڈوانی نے رام جنم بھومی۔ بابری مسجد تنازعہ پرعوامی(ہندوؤں) بیداری پیدا کرنے کے لیے رتھ یاترا نکالی اور اس دوران جگہ جگہ چھوٹے بڑے پیمانے پرفسادات ہوئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Oct 2019, 3:30 PM