ممبئی کے سابق پولیس کمشنر پرمبیر سنگھ کو ممبئی ہائی کورٹ سے بھی جھٹکا
ممبئی ہائ کورٹ نے پرمبیر سنگھ سے دریافت کیا ہے کہ ان کو ریاستی وزیرداخلہ کے خلاف کاروائ کرنے سے کس نے روکا تھا؟
ممبئی کے سابق پولیس کمشنر پرم بیر سنگھ نے مہاراشٹرا کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات عائد کر کے اسکی سی بی آئ کے ذریعہ تفشیش کرنے والی عرضداشت کے معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اسے مسترد کئے جانے کے بعد آج ممبئ ہائ کورٹ میں بھی انھیں ہزیمیت اٹُھانی پڑی اور ہائ کورٹ نے ان سے دریافت کیا کہ جب آپ پولیس کمشنر کی کرسی پر براجمان تھے تو آپ کو وزیر کے خلاف کاروائ کرنے سے کس نے روکا نیز اس ضمن میں صرف آپ نے وزیراعلی کو مکتوب روانہ کیا اور ایف آی آر کیوں نہیں درج کروائی؟
عدالت نے آج اس تعلق سے اپنا کوئ فیصلہ صادر نہی کیا البتہ یہ کہا کہ آیا یہ عرضداشت مفاد عامہ کی عرضداشت کے زمرے میں آتی ہے یا نہں اسکے بعد ہی عدالت کسی نتیجہ پر پہونچے گی نیز جب تک انل دیشمکھ کے خلاف ایف آی آر درج نہیں کی جاتی تب تک عدالت کس طرح سے تفشیش سی بی آئ کے سپرد کر سکتی ہے عدالت نے یہ کہکر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا۔
چیف جسٹس دیپانکر دتا اور جسٹس جی ایس کلکرنی پر مشتمل دو رکنی بینچ پرم بیر سنگھ کی عرضداشت کی سماعت کر رہی تھی جس کے دوران انکے وکیل وکرم ننکانی نے عدالت کوبتلایا کہ الزامات کی نوعیت سنگین ہے اور شہر کی پولیس کے ایک اعلی افسر نے یہ الزامات وزیر داخلہ کی جانب سے کی جانے والی بدعنوانیوں کو اجاگر کیا ہے اس لئے تقاضہ انصاف یہ ہےکہ اسکی تفشیش ریاست کے باہر کسی آزادانہ ایجنسی کے سپرد کی جائے اور سی بی آئ کو اسکی زمہ داری دی جائے۔
ایڈوکیٹ وکرم ننکانی نے عدالت کو اپنی عرضداشت کے قانونی پہلووں سے بھی عدالت کو واقف کرایا اور کہا کہ اس عرضداشت کی سماعت عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔
ریاستی حکومت کی پیروی کرتے ہوے ایڑوکیٹ جنرل اسوتوش کمبھ کونی نے عرضداشت کی مخالفت کرتے ہوے عدالت کو بتلایا کہ متزکرہ معاملے میں ریاستی حکومت نے سبکدوش جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور اسے ان الزامات کی تفشیش کی زمہ داری دی گئی ہے نیز عرض گزار نے جو الزامات عائد کئے ہے وہ بے بنیاد ہے اور سنگھ نے یہ الزامات اپنے تبادلے کے بعد ہی کیوں لگائے ؟ اس سے محمکہ پولیس کی بدنامی ہو رہی ہے
سرکاری وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتلایا کہ یہ عرضداشت مفاد عامہ کے زمرے میں نہیں آتی ہے اسے مسترد کر دینا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔