مختار احمد انصاری غریبوں اور مظلوموں کے مددگار کی حیثیت سے ہمیشہ جانے جائیں گے: محمود مدنی

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے مختار انصاری کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی غریبوں کے لئے خدمات کو سراہا اور ان کی موت کی شفاف تحقیقات اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا

<div class="paragraphs"><p>مختار انصاری کی فائل تصویر، سوشل میڈیا</p></div>

مختار انصاری کی فائل تصویر، سوشل میڈیا

user

پریس ریلیز

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے غازی پور اور مئو یوپی کے مشہور سیاسی و سماجی لیڈر مختار انصاری کے انتقال پر گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے ان کی موت کے اسباب پر عوامی شکوک و شبہات اور اہل خانہ کی بے اطمینانی سے انصاف اور انصاف نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ صرف انصاف کافی نہیں ہے بلکہ انصاف پر اعتبار و اعتماد بھی ضروری ہے۔ حال میں یوپی کے جیل اور پولیس کسٹڈی میں کئی سیاسی و سماجی لیڈران کے قتل یا پراسرار موت سے عوامی شک و شبہ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ مختار احمد انصاری غریبوں اور مظلوموں کے ناصر و مددگار کی حیثیت سے ہمیشہ جانے اور پہچانے جائیں گے۔ میڈیا مافیا ڈان کی امیج کو اجاگر کر کے ان کی عوامی مقبولیت اور خدمت کو مٹا نہیں سکتا۔ انھوں نے ملک کے قانون کے مطابق اپنی عمر کا ایک طویل حصہ جیل میں گزارا ہے، قانون کے مطابق جرم کی سزا سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن قانون کے برخلاف قیدی کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور قتل ہرگز روا نہیں اور اس کے بارے میں حکومت کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ مشکوک حالت میں ان کی موت نے بہت سارے سوالات کھڑے کر دیے ہیں جس کی وجہ سی ان کی مقبولیت اور حمایت فطری ہے۔


مولانا مدنی نے بتایا کہ مختار احمد انصاری کا خاندان حب الوطنی اور ملک کی بے لوث خدمات سے متعارف ہے۔ ان کا شجرہ نسب مجاہد آزادی ڈاکٹر مختار احمد انصاری ؒ اور شہید بریگیڈیئر محمد عثمان اور سابق نائب صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر حامد انصاری جیسی شخصیات سے ملتا ہے۔ ان کے دادا ڈاکٹر مختار انصاری عظیم مجاہد آزادی تھے، وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بانی تھے۔ ان کا حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ سے والہانہ تعلق تھا، وہ حضرت شیخ الہندؒ کے عقیدت مند، نیاز مند اور تربیت یافتہ تھے۔ اسی طرح نانا شہید بریگیڈیئر محمد عثمان، جو ’شیر آف نوشیرہ‘ کے نام سے مشہور ہیں، نے اس خاک وطن کی عظمت کے لیے 1948 کی جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس روایت کو مرحوم کے والد سبحان اللہ انصاری مرحوم نے بھی آگے بڑھایا۔ مختار انصاری کی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ علاقے کے غریب اور نادار لوگوں کے غم خوار اور امیدوں کے مرکز تھے۔

مولانا مدنی نے مطالبہ کیا کہ ان کی موت کے اسباب کی صاف شفاف انکوائری جلد از جلد مکمل کی جائے، کیوں کہ انصاف کے اصولوں، عدالتی نظام پر اعتماد کو برقرار رکھنے اور انصاف کی بالادستی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے۔

مولانا مدنی نے اس موقع پر مختار انصاری کے اہل خانہ بالخصوص بڑے بھائی صبغت اللہ انصاری، افضال انصاری، صاحبزادے عباس انصاری، عمر انصاری، بھتیجے صہیب انصاری وغیرہ کے ساتھ دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔