این آئی اے کا جھوٹ منکشف، ہریانہ مسجد کی تعمیر عوامی چندہ سے ہونے کی تصدیق

دہلی اقلیتی کمیشن نے ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی ہے جس نے ثابت کر دیا ہے کہ ہریانہ کے پلول واقع اٹاور میں موجود خلفائے راشدین مسجد کی تعمیر کے لیے دہشت گرد تنظیم سے مدد نہیں لی گئی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے) نے ہریانہ کی جس مسجد کی تعمیر میں دہشت گرد تنظیم کی مدد کی بات کہتے ہوئے وہاں کے امام محمد سلمان کو گرفتار کیا تھا، اس کی حقیقت سامنے آ گئی ہے۔ ویسے تو پہلے ہی پلول واقع اٹاور میں ’خلفائے راشدین‘ نامی اس مسجد کی تعمیر میں عوامی چندہ کے استعمال کی بات سامنے آئی تھی لیکن اب دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نے بھی اس بات پر مہر لگا دی ہے۔ کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے ’قومی آواز‘ سے بتایا کہ اس رپورٹ کی کاپی این آئی اے کے علاوہ مرکزی وزارت داخلہ کے پاس بھی بھیجی جائے گی تاکہ وہ حقیقت حال سے واقف ہو سکیں۔

ہٓریانہ کے پلول واقع اٹاور میں ’خلفائے راشدین مسجد‘
ہٓریانہ کے پلول واقع اٹاور میں ’خلفائے راشدین مسجد‘

یہ بھی پڑھیں: ہریانہ میں مسجد کی تعمیر لشکر طیبہ کی مدد سے نہیں ’عوامی چندہ‘ سے ہو رہی تھی

دراصل گزشتہ مہینے این آئی اے نے جب نامعلوم ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ خلفائے راشدین مسجد کی تعمیر میں پاکستان کی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ سے منسلک فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) کا پیسہ استعمال ہوا ہے، تو دہلی اقلیتی کمیشن سچ جاننے کے لیے چار اراکین پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی میں دہلی اقلیتی کمیشن کے مشیر اویس سلطان کے علاوہ اے سی مائیکل، وکیل ابو بکر سباق اور شرومنی گرودوارا پربندھک کمیٹی کے رکن سردار گرمندر سنگھ متھارو شامل تھے۔ ان سبھی نے 20 اکتوبر کو اس گاؤں کا دورہ کیا جہاں مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ دورہ کے بعد اس کمیٹی نے جو رپورٹ بدھ کے روز میڈیا کے سامنے جاری کی اس میں این آئی اے کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق این آئی اے افسر ہرویندر یادو نے مسجد کے امام محمد سلمان کے گھر والوں سے کہا کہ کسی نے ان کے خلاف وزارت میں شکایت کی جو این آئی اے کے حوالہ کیا گیا۔ لیکن فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ شکایت، ایف آئی آر اور سلمان کی گرفتاری کی تاریخ واقعات کے مطابق ترتیب سے نہیں ہیں۔ اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ این آئی اے نے سبھی اصل رسیدیں، ریکارڈس، رجسٹر اور ڈائری وغیرہ محمد سلمان کے گھر سے قبضہ میں لیے تھے لیکن ان چیزوں کو قبضہ کے وقت اس کی تفصیل پر مبنی ’سیزر میمو‘ کی کاپی پیش نہیں کی۔

اس طرح کے کئی حقائق فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں درج ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگوں کا بیان موجود ہے جو یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ مسجد کی تعمیر میں پاکستانی دہشت گرد تنظیم کا پیسہ لگا ہے۔ 36 صفحات پر مبنی اس رپورٹ میں مقامی ہندو اور مسلم دونوں کے ذریعہ 10 ایکڑ زمین مسجد اور مدرسہ کو عطیہ کرنے کی بات لکھی گئی ہے۔ اس میں مالوکا گاؤں باشندہ روہتاس کمار کا وہ بیان بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کمیٹی سے کہا کہ ’’اس مسجد کی تعمیر میں پاکستان سے فنڈنگ کی خبر پوری طرح غلط اور پروپیگنڈا ہے جو فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعہ میوات علاقہ کی شبیہ کو خراب کرنے اور ووٹروں کو پولرائز کرنے کی کوشش ہے۔‘‘ یہاں یہ بتانا بھی قابل ذکر ہے کہ روہتاس کمار اٹاور مارکیٹ میں فوٹو اسٹوڈیو چلاتے ہیں اور جب خلفائے راشدین مسجد کی سنگ بنیاد رکھی گئی تھی تو اس کی فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی انھوں نے ہی کی تھی۔

31 اکتوبر کو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرنے کے موقع پر دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفرالاسلام خان نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے جب خلفائے راشدین مسجد کا دورہ کیا اور وہاں کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت کی تو دہشت گرد تنظیم سے فنڈ حاصل کرنے کی بات بے بنیاد معلوم ہوئی۔ مقامی پولس سے بھی اس سلسلے میں بات کی گئی ، لیکن لشکر طیبہ سے مسجد کو ملی کسی بھی مدد کا ثبوت کمیٹی کو نہیں ملا۔ کمیٹی کی صدارت کرنے والے اویس سلطان نے تو میڈیا سے واضح لفظوں میں یہ بھی کہہ دیا کہ لشکر طیبہ کا مکتبہ فکر اور خلفائے راشدین انتظامیہ کا مکتبہ فکر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی رشتہ قائم ہونا ناممکن ہے۔ انھوں نے میڈیا سے بتایا کہ ’’کمیٹی کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے کہا جا سکے کہ پلول کے اٹّاور میں خلفائے راشدین مسجد کی تعمیر کے لیے دہشت گردوں سے پیسہ لیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسجد تبلیغی جماعت سے منسلک ہے جب کہ لشکر طیبہ اور ایف آئی ایف کا تعلق سلفی مکتبہ فکر سے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے نظریات اور روایات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اس طرح ان کے درمیان تال میل ہونے کا یا مسجد کے لیے پیسہ دیے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Nov 2018, 8:09 PM