مرادآباد: برقعہ پوش طالبات کو کالج میں داخلہ کی اجازت، اب کمرہ جماعت میں جا سکیں گی باحجاب، احتجاج کے بعد دیا گیا چینج روم

کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس نے نیا ڈریس کوڈ نافذ کیا ہے جس کا اطلاق یکم جنوری سے ہو گیا ہے، جس کے مطابق برقعہ پہن کر آنے والی طالبات کو برقعہ اتارنے کے بعد ہی کالج میں داخلہ ملے گا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آس محمد کیف</p></div>

تصویر آس محمد کیف

user

آس محمد کیف

مرادآباد کے ’ہندو پی جی کالج ‘ میں اب مسلم طالبات کو برقعہ پہن کر آنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وہ کلاس میں حجاب میں بھی بیٹھ سکیں گی۔ کالج انتظامیہ کے مطابق گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد برقعہ اتارنے کے لئے چینج روم بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل کالج انتظامیہ نے نئے ڈریس کوڈ کے نام پر برقعہ پہن کر آنے والی طالبات کے کالج میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی، جس پر طالبات بدھ سے ہی احتجاج کر رہی تھیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آس محمد کیف</p></div>

تصویر آس محمد کیف

خیال رہے کہ مراد آباد کے ہندو پی جی کالج میں بدھ کے روز برقعہ پوش طالبات کو داخلہ دینے سے انکار کرنے پر زبردست ہنگامہ ہوا تھا۔ برقعہ اور حجاب پہننے پر پابندی کے بعد درجنوں مسلم طلبہ یہاں دھرنے پر بیٹھ گئیں اور کالج انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ اس ہنگامے کے بعد سماج وادی اسٹوڈنٹس یونین کے نوجوان لیڈر بھی ان طالبات کی حمایت میں آگئے، جس کے بعد معاملہ نے طول پکڑ لیا۔ صورتحال اس قدر نازک تھی کہ طلبہ یونین کے کارکنوں اور کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ستیہ ورت سنگھ راوت کے درمیان گرما گرم بحث بھی ہوئی۔ اس دوران طلبہ لیڈروں نے چیف پراکٹر اے پی سنگھ پر غیر مہذب سلوک اور قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔ ہنگامہ بڑھنے پر پولیس کو اطلاع دی گئی۔ جمعرات 19 جنوری کو صبح ہنگامہ آرائی کے بعد کالج انتظامیہ نے گیٹ کے قریب ایک چینج  روم قائم کر کے برقعہ پوش طالبات کو داخلہ دے دیا۔ اس کے علاوہ طالبات پر کلاس میں حجاب پہننے پر اب کوئی پابندی نہیں ہوگی۔


اسے طالبات کی جدوجہد کی جیت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس واقعہ کی وجہ سے مرادآباد میں کافی ہلچل مچ گئی اور معاملہ طول پکڑتا جا رہا تھا۔ یہ ہنگامہ بدھ کی صبح اس وقت شروع ہوا جب مراد آباد سے گریجوایشن کر رہیں طالبات نازرین، عظمیٰ اور ہُما ​​معمول کے مطابق برقعہ پہن کر کالج پہنچیں اور انہیں کالج کے گیٹ پر روک دیا گیا اور برقعہ اتارنے کو کہا گیا۔ جب ان طالبات نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو کالج انتظامیہ نے انہیں کالج میں داخلہ دینے سے روک دیا۔

کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس نے نیا ڈریس کوڈ نافذ کیا ہے جس کا اطلاق یکم جنوری سے ہو گیا ہے، جس کے مطابق برقعہ پہن کر آنے والی طالبات کو برقعہ اتارنے کے بعد ہی کالج میں داخلہ ملے گا۔ اس کے بعد طالبات نے برقعہ میں ہی کلاس روم میں جانے کی اجازت مانگی، لیکن کالج انتظامیہ نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد تنازعہ بڑھ گیا۔ طالبات نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ قرار دینا شروع کر دیا۔ ایک طالبہ نازرین نے کہا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق برقع پہن رہی ہے اور یہ اس کا حق ہے۔ وہ برقعہ پہن کر کالج کیمپس جانا چاہتی ہے۔ تاہم، وہ کلاس میں برقعہ نہیں پہنتی، پھر کالج میں داخل کیوں نہیں ہونے دیا جا رہا، یہ بالکل غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے اور کالج انتظامیہ زبردستی نہیں کر سکتی۔


طالبات کے احتجاج کے دوران موجود سماج وادی پارٹی اسٹوڈنٹ کے ضلع صدر اسلم چودھری نے بتایا کہ کالج انتظامیہ ہٹ دھرمی کر رہی تھی، انہیں اپنے ہی کالج کی طالبات کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ’’مسلم لڑکیاں پہلے ہی کالج میں بہت کم تعداد میں ہیں۔ ہمیں انہیں مزید پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے لیکن ایسے واقعات ان کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ بہت سی لڑکیوں نے ہمیں بتایا کہ اگر وہ برقع نہیں پہن سکیں گی تو ان کے لیے کالج میں پڑھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ہم نے یہی بات کالج انتظامیہ کو بھی بتائی۔ کالج انتظامیہ انتہائی منفی رویہ اپنائے ہوئے تھی لیکن انہیں لڑکیوں کی ضد کے سامنے کوئی حل نکالنا پڑا۔‘‘

وہیں، ہندو پی جی کالج کے پرنسپل ستیہ ورت سنگھ راوت نے کہا ’’ہمارا مقصد کسی کے مذہب کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔ کالج نے نیا ڈریس کوڈ نافذ کیا ہے، جس کا اطلاق یکم جنوری سے ہو گیا ہے۔ ہم تمام طالبات کو یونیفارم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں یونیفارم کے اوپر حجاب اور برقعہ پہن کر آتی ہیں۔ جسے وہ کلاس روم میں اتار دیتی ہیں۔ اب گیٹ پر بنے چینج روم میں اتارنے کو کہا گیا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔