کشمیریوں کے تحفظ سے متعلق وزیر اعظم کی بات محض جملہ ثابت: عمر عبداللہ
عمر عبداللہ نے کہا کہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر پابندی سے ریاست کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
سری نگر: نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیریوں کے تحفظ سے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کی بات محض جملہ ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ ملک کے آئین کے تحت حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی ہے لیکن آج میں کس آئین کی بات کروں، آج اسی کے تحت میرے لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا ہے اوراسی جھنڈے کے پیچھے چھپ کر لوگوں کی پٹائی کی جاتی ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر پابندی سے ریاست کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
ان باتوں کا اظہار عمر عبداللہ نے جمعرات کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح کمپلیکس پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس تقریب کا انعقاد پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور سابق ایم ایل اے بیروہ ڈاکٹر شفیع احمد وانی کی نیشنل کانفرنس میں شمولیت کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔ تقریب پر جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، سٹیٹ سکریٹری چودھری محمد رمضان، وسطی زون صدر علی محمد ڈار، شمالی زون صدر محمد اکبر لون، خواتین صدر شمیمہ فردوس اور صوبائی یوتھ صدر سلمان علی ساگر کے علاوہ کئی سرکردہ لیڈران اور عہدیداران موجو دتھے۔ اس موقعے پر ڈاکٹر شفیع کا پارٹی میں پُرتپاک استقبال کیا گیا اور انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔
نئی دلی کو کشمیریوں کی آواز تقسیم کرنے کی کوششیں بند کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے مرکز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 'سازشوں سے جموں و کشمیر آپ کا نہیں رہے گا، آگر آپ سوچتے ہیں کہ لوگوں کی آواز بانٹنے سے ریاست کا رشتہ ملک کے ساتھ مضبوط ہوگاتو یہ آپ کی بڑی غلط فہمی ہے، ان کوششوں سے آپ اس رشتے کو اور زیادہ کمزور کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ 'جب تھرڈ فرنٹ کی بات آتی ہے تو ایسا رجحان صرف کشمیر میں ہی دیکھنے کو کیوں ملتا ہے؟ جموں اور لداخ میں اس قسم کی سرگرمیاں کیوں نہیں؟ وادی میں جب کوئی نوجوان سیاست میں آتا ہے تو وہ نئی پارٹی کیوں بناتا ہے؟ یہ جموں اور لداخ میں دیکھنے کو نہیں نہیں ملتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر ایک منصوبہ بند سازش کے تحت کیا جارہا ہے، جس کی پیش گوئی شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے پہلی ہی کی تھی۔
مرحوم نے پہلے ہی یہ دن دیکھے تھے اور اُسی وقت کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد نئی دلی کشمیر میں گلی گلی لیڈر پیدا کرے گی اور کشمیری قوم ایک آواز میں بات نہیں کرسکے گی اور آج ہمیں وہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے، یہاں کی آواز بکھر گئی ہے، ہمیں بانٹا جارہا ہے، ہمیں چھوٹے چھوٹے معاملوں میں الجھایا جارہاہے اور بڑی بڑی چیزوں پر ہماری توجہ جاتی ہی نہیں۔ اس وقت ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے اور ہمیں ایک آواز میں بات کرنی ہوگی'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ ریاست خصوصاً وادی کے حالات پُرتناﺅ ہیں، کسی کو پتہ نہیں کہ کل کیا ہوگا؟ شکر ہے کہ جنگ کے بادل کافی حد تک جھڑ گئے، تاہم ابھی بھی ماحول سازگار نہیں بنا، ابھی بھی ہمارے لوگوں کو بنا وجہ نشانہ بناجارہاہے، ڈریا جارہاہے، دھمکایا جارہاہے۔ کل ہی لکھنو میں کشمیری ڈرائی فروٹ بیچنے والے کو نشانہ بنایا گیا، ان کا نہ تو ریاست اور نہ ہی ملک کی سیاست کے ساتھ کوئی لینا دینا تھا، اُن کی کوئی غلطی نہیں، کسی نے اُن پر الزام نہیں لگایا، ان لوگوں نے کسی کو لوٹانہیں تھا، نہ چوری کی تھی اور نہ ہی کہیں کسی کیساتھ اونچی آواز میں بات کی تھی، یہ لوگ عزت کی روزی روٹی کمانے نکلے تھے، پھر انہیں نشانہ کیوں بنایا گیا؟
وزیر اعظم ہند نریندر مودی سے مخاطب ہوتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ 'وزیر اعظم صاحب آپ نے راجستھان میں بہت بڑی تقریر کی اور ہم نے اُس کا خیر مقدم کیا۔ آپ نے کہا کہ کشمیریوں کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے، آپ نے کہا کہ لڑائی کشمیری کے خلاف نہیں ہے، لیکن آج یا تو آپ کی بات پر عمل نہیں ہورہا ہے یا آپ کی بات ہمارا دل بہلانے کے لئے صرف ایک جملہ تھا۔آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کی تقریروں میں دم ہے یا نہیں ہے؟ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ جب آپ وزیر اعظم کی حیثیت سے کوئی بات کرتے ہو تو اس پر عمل ہوتا ہے کہ نہیں؟ آپ کو ثابت کرنا ہے، جس سیاسی ڈھانچے سے آپ آئے ہو اس میں آپ کی بات چلتی ہے یا نہیں؟'
این سی نائب صدر نے کہا کہ 'ہمارے بے گناہ لوگوں کو اس طرح سڑکوں پر مارا جائے، اُن کی پٹائی کی جائے، ٹرین میں دھمکیاں دی جائیں، ہمارے طلبا کو کالجوں اور سکولوں سے بگھایا جائے اور اس کے بعد کوئی کارروائی نہ ہو ، یہ ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟'
انہوں نے کہا ہم ہر طرف سے مار کھا رہے ہیں، مارچ اور اپریل کے لئے کسی ہوٹل میں بکنگ نہیں، یہاں آنے والے سیاحوں کو ڈرایاگیاجس کے نتیجے میں انہوں نے بکنگ منسوخ کردی۔ بیرونی ریاستوں میں ایجنسی والوں کو بولا گیا ہے کہ اگر کوئی کشمیر کی بکنگ کے لئے آئے تو اسے کسی اور ریاست کا رُخ کرنے کا مشورہ دیا جانا چاہئے۔
عمر عبداللہ نے سوال کیا کہ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اگر سیاحتی شعبہ سے وابستہ افراد میں سے کسی ایک نے بیروزگار ہوکر پتھر اُٹھائے تو اُس کا قصور وار کون ہوگا؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔