صحافیوں کی نکیل کسنے والا ’نادر شاہی فرمان‘ واپس
وزیر اعظم کے حوالہ سے خبر ہے کہ انہوں نے وزارت برائے اطلاعات و نشریات کے فیک نیوز والے فرمان کو واپس لینے کے لئے وزارت سے کہا ہے۔
وزیر اعظم نے وزارت برائے اطلاعات و نشریات کو ہدایت جاری کی ہیں کے وہ فیک نیوز کے تعلق سے اپنا آرڈر واپس لے لے اور اس تعلق سے جو بھی فیصلہ لیا جانا ہے وہ پہلے کی طرح پریس کاؤنسل آف انڈیا ہی لے گا۔
واضح رہے کل حکومت نے صحافیوں پر نکیل کسنے کے لئے یا یوں کہئے کہ اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کے لئے منظور شدہ صحافیوں (ایکریڈٹیٹڈ جرنلسٹ) کے تعلق سے بنے قانون میں تبدلیوں کا اعلان کیا تھا ۔ نئے بدلاؤ کے تحت فرضی خبر چلانے پر صحافی کا اکریڈیٹیشن رد کر دیا جانا تھا ۔ وزارت برائے اطلاعات و نشریات نے ایک پریس ریلیز کے ذریعہ بتایا تھا کہ فرضی خبر یا فیک نیوز چلانے والوں کا اکریڈیٹیشن ہمیشہ کے لئے رد کیا جا سکتاہے۔ حکومت کے اس نئے فرمان کو لے کر صحافیوں میں زبر دست غصہ تھا اور صحافیوں کی کئی تنظیمیں آج شام 4 بجے پریس کلب میں ایک میٹنگ کرنے والی تھیں لیکن اس سے پہلے ہی وزیر اعظم کے حوالے سے یہ بیان آ گیا۔
جو نادر شاہی فرمان جاری کیا گیا تھا اس کے مطابق پہلی مرتبہ فرضی خبر ثابت ہونے پر6 ماہ کے لئے صحافی کا ایکریڈٹیشن معطل کیا جانا تھا، دسری بار یہ ثابت ہونے پر ایک سال کے لئے اور اگر تیسری مرتبہ ایسی شکایت صحیح پائی گئی تو ہمیشہ کے لئے اکریڈٹیشن رد کیا جانا تھا۔ فرضی خبر یا فیک نیوز کی جانچ پریس کاؤنسل آف انڈیا اور نیوز براڈ کاسٹرس ایسوسی ایشن کے ذریعہ کی جانی تھی۔ پرنٹ میڈیا سے متعلق خبر کی جانچ پریس کاؤنسل اور الیکٹرانک میڈیا کی جانچ براڈ کاسٹرس ایسو سیشن کو کرنی تھی۔
صحافیوں کا ماننا تھا کہ یہ حکومت کی جانب سے فیک نیوز کو روکنے کی کوشش کم تھی اور صحافیوں اور ان کے جو خبر کے ذرائع ہوتے ہیں ان کو ڈرانے کی زیادہ کوشش تھی۔
واضح رہے صحافی زیادہ تر وہ خبریں شائع کرتے ہیں جو ان کے ذرائع ہو تے ہیں یعنی افسران اور ایکٹوسٹ۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ صحافی صرف حکومت اور کارپوریٹ گھرانوں کی پریس ریلیز شائع کریں اور انویسٹی گیٹو صحافت بند کر دیں تاکہ حکومت کے کسی بھی غلط فیصلے اور پالیسی کے بارے میں عوام کو نہ پتہ لگ سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Apr 2018, 1:07 PM