ناگا امن مذاکرہ: مودی حکومت کو لگا جھٹکا، باغی لیڈران الگ پرچم اور آئین کے لیے بضد

ناگا باغی گروپ کے ذرائع نے بتایا کہ ہم ناگا قومی پرچم اور آئین کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اور یہی دو ایشوز دہلی میں چل رہے مذاکرہ میں ناگا ایشوز کے حل میں رخنہ انداز ہو رہے ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

مرکز کی مودی حکومت کو نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالم (این ایس سی این-آئی ایم) کے لیڈروں کے ایساک-موئیوا گروپ کے ساتھ ناگا امن مذاکرہ میں رخنات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ناگا لیڈر اپنے اہم مطالبات پر بضد ہیں، جن میں اپنا الگ آئین اور پرچم شامل ہے۔ ان معاملوں سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکز کو امید ہے کہ چھ دہائی سے چلے آ رہے امن مذاکرہ کا ایک کامیاب حل مدلل نتیجہ پر پہنچ جائے گا، لیکن حال کے بیانات میں ناگا لیڈروں نے مرکز پر حل کے بعد کے متبادل (پوسٹ-سالیوشن آپشن) دینے کا الزام لگایا ہے۔ ناگا لیڈروں کے رخ کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع نے کہا کہ این ایس سی این کا رخ واضح ہے کہ وہ ناگا حل کے رخنہ انداز راستوں پر آگے نہیں بڑھے گا، جو کہ ناگا قومی پرچم اور آئین کو قربان کرنے سے جڑا ہے، جو ناگا سیاسی جدوجہد کا چہرہ اور شناخت ہے۔

ناگا لیڈروں نے یہ بھی کہا ہے کہ معاملہ گرم ہونے پر مرکز ناگا سیاسی حل تلاش کرنے کے نام پر تقسیم کرنے والی پالیسی اور چاپلوسی کا استعمال کر رہا ہے۔ ناگا باغی گروپ میں ایک ذرائع نے کہا کہ جب مرکز نے اس سال ستمبر میں امن کا عمل پھر سے شروع کیا تھا اور خفیہ بیورو (آئی بی) کے سابق اسپیشل ڈائریکٹر اے کے مشرا باغی تنظیم کے چیف مذاکرہ کار اور جنرل سکریٹری ٹی موئیوا کو وزارت داخلہ کے سفر کی شکل میں یقین دہانی کرائی تھی کہ امن مذاکرہ 2015 میں دستخط شدہ اصل ڈھانچے کے تحت شروع کیا جائے گا۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’یہاں ہم ناگا قومی پرچم اور یجابو (آئین) کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور یہی دو ایشوز ہیں جو دہلی میں چل رہی ہند-ناگا سیاسی مذاکرہ کے تحت ناگا ایشوز کے حل کو روک رہے ہیں۔‘‘ باغی تنظیم کے ایک اہم عہدیدار نے مرکز پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ناگا لوگ اتنے میں ہی راضی ہو جائیں جتنا انھیں پیشکش ہو رہی ہے۔

مرکز کی دعوت پر ٹی موئیوا سمیت این ایس سی این-آئی ایم کے سینئر لیڈر اس سال 6 اکتوبر کو مرکز کے ساتھ ایک مزید دور کی بات چیت کرنے کے لیے قومی راجدھانی پہنچے تھے۔ مرکز اور ناگا لیڈروں نے طویل مدت سے زیر التوا اس ایشو کو اس سال کے آخر تک خیر سگالی کے ساتھ حل کرنے کے لیے اپنی دلچسپی کا اشارہ دیا تھا۔


آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما، جو نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس (این ای ڈی اے) کے سربراہ بھی ہیں، اور ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ نیفیو ریو امن مذاکرہ کو پھر سے شروع کرنے اور انھیں مدلل نتیجہ تک لے جانے میں سرگرم طور سے شامل رہے ہیں۔ انھوں نے موئیوا سمیت ناگا لیڈروں سے بھی ملاقات کی ہے اور امن مذاکرہ کے لیے راضی کیا ہے۔

ناگالینڈ کے گورنر آر این روی کے، جنھیں 29 اگست 2014 کو ناگا امن مذاکرہ کے لیے مرکز کے مذاکرہ کار کی شکل میں تقرر کیا گیا تھا، تمل ناڈو میں تبادلے کے فوراً بعد امن مذاکرہ 20 ستمبر کو کوہیما میں پھر سے شروع ہوا، جب مرکز کے پرتیندھی مشرا نے ناگا لیڈروں سے ملاقات کی اور انھیں بات چیت کے آگے کے دور کے لیے دہلی آنے کے لیے دعوت دی۔


این ایس سی این-آئی ایم اور دیگر تنظیموں نے 1997 میں حکومت ہند کے ساتھ جنگ بندی سمجھوتہ کیا تھا اور اب تک 80 سے زیادہ دور کی بات چیت ہو چکی ہے۔ این ایس سی این-آئی ایم اور خفیہ ذرائع نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ مرکز کے ساتھ بات چیت کے دوران جہاں ناگا گروپس کے 31 مطالبات میں سے کئی کا حل تقریباً ہو گیا ہے، وہیں الگ پرچم اور آئین کو لے کر نااتفاقی بنی ہوئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔