معیشت کو بہتر کرنے کی جگہ مزید تباہ کر رہے مودی حکومت کے تازہ فیصلے!

ہندوستانی معیشت کی حالت انتہائی دگر گوں ہے۔ آٹو سیکٹر ہو یا رئیل اسٹیٹ سیکٹر، سبھی خریداروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ شیئر بازار بھی ہچکولے کھا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

ہندوستانی معیشت کی حالت انتہائی خراب ہے۔ سبھی سیکٹر بحرانی کیفیت سے دو چار ہیں۔ کئی کمپنیاں بند ہو گئی ہیں تو کئی کمپنیوں کو اپنا پلانٹ بند کرنے کا فیصلہ لینا پڑا ہے۔ آٹو سیکٹر ہو یا رئیل اسٹیٹ سیکٹر، سبھی خریداروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں شیئر بازار بھی ہچکولے کھا رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کہیں حکومت کے ذریعہ معیشت کو بہتر کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے قدم ہی تو کام خراب نہیں کر رہے۔

مودی حکومت کے کسی بھی قدم کا معیشت پر کوئی اثر ابھی تک دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ اگر ہم بینکوں کے انضمام کی بات کریں تو اس کے طریقوں پر بھی ماہرین انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بینکوں کو کچھ پونجی دے کر ایک سلسلہ وار طریقے سے انضمام 2014 میں ہی شروع ہو سکتا تھا، یا پھر اسٹیٹ بینک اور بینک آف بڑودا کے تازہ انضمام کے نتیجوں کا انتظار کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت مندی دور کرنے کے لیے سستے بینک قرض کی ضرورت ہے لیکن اب بینک قرض تقسیم کرنے کی کوشش چھوڑ کر بہی کھاتہ ملانے میں مصروف ہے اور خسارہ بڑھنے کے خوف سے کانپ رہا ہے۔


ہندی نیوز پورٹل ’آج تک‘ کی خبروں کے مطابق نقصان گھٹانے کے لیے بینک اپنے یہاں ملازمتوں کی کٹوتی کر سکتا ہے۔ بینکوں کے پاس ڈپازٹ پر قرض کی شرح کم کرنے کا متبادل نہیں ہے، جمع ٹوٹ رہا ہے تو پھر وہ ریپو ریٹ کی بنیاد پر قرض کیسے دیں گے؟ یہ اصلاح بھی بینکوں کے حلق میں پھنس گیا ہے۔

دوسری طرف ریرا یعنی رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری بل کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی حالت خستہ ہو گئی۔ حالانکہ یہ ایک بڑا اصلاحی قدم تھا۔ لیکن اس کی آمد مندی کے وقت ہوئی، جس کا اثر یہ ہوا کہ لاکھوں پروجیکٹ بند ہو گئے۔ ڈوبا کون؟ صارفین کا پیسہ اور بینکوں کی پونجی۔ اب جو بچیں گے وہ مکان مہنگا فروخت کریں گے۔ ریزرو بینک نے یوں ہی نہیں کہا کہ ہندوستان میں مکانوں کی مہنگائی سب سے بڑی آفت ہے اور یہ بڑھتی رہے گی، کیونکہ کچھ ہی بلڈر بازار میں بچیں گے۔


کچھ ایسا ہی آٹو موبائل سیکٹر کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ یہ سیکٹر مندی کی گرفت میں ہے اور عین اسی وقت اصلاح کا سہرا اس سیکٹر کے سر باندھ دیا گیا۔ طلب میں کمی کے درمیان ڈیزل کاریں بند کرنے اور نئے آلودگی کے قانون نافذ کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ علاوہ ازیں حکومت بیٹری گاڑیوں پر زور دے رہی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ کئی کمپنیاں بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔

مودی حکومت کا ایک اور فیصلہ سنگل یوز پلاسٹک بند کرنا بھی بغیر سوچے سمجھے ہی لے لیا گیا۔ سنگل یوز پلاسٹک بند ہونا چاہیے لیکن متبادل تو سوچ لیا جاتا۔ اس مندی میں صرف پلاسٹک ہی ایک ایسی چھوٹی صنعت ہے جو صحیح طریقے سے چل رہی ہے، لیکن یہ فیصلہ اس صنعت کو برباد کر دے گا۔


جو کچھ بچا تھا اس کو جی ایس ٹی نے پوری طرح برباد کر دیا۔ 2005 میں منموہن حکومت نے ویٹ یعنی ویلو ایڈیڈ ٹیکس نافذ کرنے کا فیصلہ لیا تھا، ان کا یہ فیصلہ صحیح ثابت ہوا۔ کیونکہ اس وقت ملک کی معیشت آگے بڑھ رہی تھی، پروڈکشن بڑھا اور ریاستوں کا خزانہ بھر گیا۔ لیکن جی ایس ٹی اس وقت نافذ کیا گیا جب نوٹ بندی کی وجہ سے معیشت کی حالت خراب ہو گئی تھی، جی ایس ٹی خود بھی ڈوبا اور کاروباروں اور اس کے بجٹ کو بھی لے ڈوبا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Sep 2019, 2:10 PM