’ایک تہائی وزیر اعظم کی حکومت نیٹ گھوٹالہ سے بچنے کی کوشش کر رہی‘، طلبا کے مستقبل کو لے کر کانگریس فکرمند
جئے رام رمیش نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا نیٹ-یو جی کا ریزلٹ ممکنہ طور پر طے مدت سے 10 دن قبل جاری کیا گیا تھا تاکہ وہ لوک سبھا انتخاب کے نتائج کے شور میں دب جائے اور میڈیا کی توجہ کم جائے؟
نیٹ امتحان میں مبینہ گھوٹالہ کو لے کر کانگریس مودی حکومت پر پوری طرح حملہ آور دکھائی دے رہی ہے۔ کانگریس صدر کھڑگے نے جہاں نیٹ گھوٹالے کی جانچ سپریم کورٹ کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے، وہیں کانگریس رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی نے اس معاملے میں پی ایم مودی کی خاموشی پر سوال اٹھائے ہیں۔ اس درمیان کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
جئے رام رمیش نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر ایک پوسٹ کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’ایک تہائی وزیر اعظم کی حکومت نیٹ تنازعہ اور اس میں واضح طور سے ہوئے گھوٹالے سے بچنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ اس نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا ہے کہ 1563 طلبا کو دیے گئے گریس مارکس رد کر دیے جائیں گے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ پہلے گریس مارکس دیے ہی کیوں گئے؟‘‘ وہ آگے لکھتے ہیں کہ ’’اس کی پہلی وجہ یہ معلوم پڑتی ہے کہ پیپر میں فیزکس کا ایک سوال تھا جس میں 4 متبادل دیے گئے تھے۔ این سی ای آر ٹی کے درجہ بارہویں کے نئے نصاب کے مطابق 4 میں سے ایک متبادل درست تھا۔ لیکن پرانے نصاب کی بنیاد پر دوسرے متبادل کو بھی درست مانا جا سکتا ہے۔ جن طلبا نے بعد والے پر نشان لگایا اور ان کے علاوہ جن طلبا کا وقت پیپر تقسیم کرنے میں تاخیر وغیرہ کے سبب برباد ہوا، انھیں گریس مارکس دیے گئے۔ ایسا ہونا ایک انتہائی گھٹیا حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) اور این سی ای آر ٹی دونوں کا کردار فکر انگیز ہے۔‘‘
جئے رام رمیش نے اس پوسٹ میں گریس مارکس دیے جانے کے علاوہ کچھ دیگر بے ضابطگیوں سے متعلق 4 سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ بی جے پی صدر جے پی نڈا اور وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کو اس تعلق سے جواب دینا چاہیے۔ جو 4 سوال کانگریس جنرل سکریٹری نے پوچھے ہیں، وہ اس طرح ہیں:
کیا نیٹ کا سوالنامہ لیک ہو گیا تھا، جیسا کہ کئی میڈیا اور سوشل میڈیا رپورٹس و پٹنہ میں ایک طالب علم کے ذریعہ درج کرائی گئی ایف آئی آر سے اشارہ ملتا ہے؟
کیا نیٹ-یو جی پیپر کے ریزلٹ ممکنہ طور پر طے مدت سے 10 دن قبل (14 جون کی جگہ 4 جون کو) جاری کیا گیا تھا تاکہ وہ لوک سبھا انتخاب کے نتائج کے شور میں دب جائیں اور میڈیا کی کم توجہ جائے؟
2019 کے بعد سے نیٹ یو جی کے کسی بھی سال میں تین سے زیادہ ٹاپر نہیں رہے ہیں۔ یہ امتحان ملک کے سبھی ایم بی بی ایس پروگراموں میں انٹری کے لیے واحد داخلی دروازہ ہے۔ 2019 اور 2020 میں ایک ایک ٹاپر تھے۔ 2021 میں تین، 2022 میں ایک اور گزشتہ سال 2 ٹاپر تھے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ایک یا دو نہیں بلکہ 67 طلبا نے 2024 میں 720 کا پرفیکٹ اسکور کس طرح حاصل کیا؟ ان میں سے 44 کو گریس مارکس سے فائدہ ہوا۔ اگر انھیں ہٹا دیں تو پھر بھی 23 ٹاپر بچتے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 گنا زیادہ ہے۔ اس سال آخر ایسا کیا بدل گیا؟
ایک ہی ریاست سے آنے والے کئی نیٹ-یو جی 2024 ٹاپرس کے رول نمبر ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا وہ ایک ہی امتحان مرکز سے تھے؟
اس درمیان این ایس یو آئی (نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا) نے جنتر منتر پر چل رہے ’نیٹ ستیاگرہ‘ کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ نیٹ امیدواروں کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے این ایس یو آئی کے قومی صدر ورون چودھری نے اعلان کیا ہے کہ تنظیم غیر جانبدار امتحان نظام اور ضروری اصلاحات کے مطالبہ میں طلبا کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔