شہریت ترمیمی بل سے جڑی 10 اہم باتیں
آئینی قدروں کا مخالف شہریت ترمیمی بل، جس میں مذہب کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے شہریوں کو شہریت دینے کی بات کہی جا رہی ہے، اس کی زبردست مخالفت ہو رہی ہے
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے آج لوک سبھا میں متنازعہ شہریت ترمیمی بل پیش کر دیا ہے۔ اس بل کے مطابق دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین کو جن ضابطوں کے تحت شہریت دی جائے گی ان ضابطوں کو پوری طرح بدل دیا جائے گا۔حزب اختلاف نے اس بل کی مخالفت کی ہے اور جن ضابطوں پر اس کی مخالفت کی جا رہی ہے وہ دس نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
- مودی حکومت جو نیا بل لا رہی ہے اسے شہریت ترمیمی بل 2019 کا نام دیا گیا ہے۔اگر یہ بل ایوان میں منظور ہو جاتا ہے تو اس سے ملک میں 1955 سے موجود شہریت کے قانون میں تبدیلی آ جائے گی۔
- نئے بل کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان اور دیگر ممالک سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی مہاجرین کو ہندوستان کی شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔
- اس بل کے پاس ہونے کے بعد سبھی غیر مسلم مہاجرین کو غیر قانونی مہاجر قرار دیا جائے گا۔ موجودہ قانون کے مطابق غیر قانونی طریقہ سے آئے لوگوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا یا حراست میں لیا جا سکتا ہے۔
- نئے بل کے ضابطوں کے مطابق اب سبھی غیر مسلم مہاجرین کو ہندوستان کی شہریت پانے کے لئے کم سے کم چھ سال کا وقت ہندوستان میں گزارنا ہوگا پہلے یہ مدت گیارہ سال تھی۔
- نئے قانون کے مطابق شمال مشرق کی ریاست اروناچل پردیش، ناگا لینڈ، اور میزورم کے انر لائن پرمٹ ایریا کو اس بل سے باہر رکھا گیا ہے۔
- نئے قانون کے بعد افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے کسی بھی ہندو، جین، سکھ، بودھ، عیسائی شہری کو غیر قانونی شہری نہیں مانا جائے گا، لیکن اس کے لئے کون سی تاریخ طے کی گئی ہے اس کی ابھی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
- اس کے علاوہ اوورسیز سیٹیزن شپ آف انڈیا یعنی او سی آئی کارڈ ہولڈر اگر کسی قانون کی خلاف ورزی کریں گے تو انہیں اپنی بات رکھنے کا موقع دیئے جانے کی گنجائش ہے۔
- کانگریس سمیت تمام حزب اختلاف اور بی جے پی کی کچھ اتحادی پارٹیوں نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کا یہ بل ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا کام کرے گا جو برابری کے قانون کے خلاف ہے۔
- شمال مشرق کی ریاستوں میں اس بل کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش سے زیادہ تر ہندو آکر آسام، اروناچل، منی پور جیسی ریاستوں میں بسے ہیں جس سے ان ریاستوں کا سماجی تانا بانا خراب ہو رہا ہے۔ شمال مشرق کی طلباء تنظیم اور پارٹیاں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔
- این ڈی اے میں شامل بی جے پی کی اتحادی اسم گن پریشد نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Dec 2019, 12:40 PM