MTNL اور BSNL کے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے نکالے گی مودی حکومت!
مودی حکومت ’وی آر ایس‘ کا گجرات ماڈل اختیار کر کے ایم ٹی این ایل اور بی ایس این ایل کے ہزاروں ملازمین کو ملازمت سے نکالنے کی کوشش پر آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے تحت دونوں کمپنیوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔
مرکزی حکومت ملک میں ٹیلی مواصلات کی دو بڑی کمپنیوں بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل کو فروخت کرنے کی تیاری کر رہی ہے، اسی لیے ان دونوں کمپنیوں کے ملازمین کو ’والنٹری ریٹائرمنٹ اسکیم‘ (وی آر ایس) کی تجویز پیش کی جا رہی ہے۔ یہ الزام ایم ٹی این ایل اور بی ایس این ایل کے ملازمین اور ایمپلائی یونین نے حکومت پر عائد کیا ہے۔
دراصل حکومت کی انٹر منسٹریل یونٹ ڈیجیٹل کمیونکیشن کمیشن (ڈیجیٹل مواصلات کمیشن) نے جمعرات کو اس بات پر اصولی طور سے منظوری دے دی کہ وی آر ایس منصوبہ کے لیے ضروری پیسے کا انتظام کرنے اور دونوں کمپنیوں کا قرض اتارنے کے لیے 10 سال کے بانڈ جاری کیے جائیں اور ایم ٹی این ایل اور بی ایس این ایل کی ملکیت فروخت کی جائیں۔ ٹیلی مواصلات محکمہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم ٹی این ایل پر اس وقت تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کا قرض ہے، جب کہ بی ایس این ایل پر 15 ہزار کروڑ روپے کا۔ ان یونٹس کے ملازمین کو وی آر ایس دینے پر کل خرچ تقریباً 8500 کروڑ کا آنا ہے (اس میں بی ایس این ایل کا 6300 کروڑ اور ایم ٹی این ایل کا 2100 کروڑ روپے شامل ہے)۔ اور اس کے بعد دونوں یونٹوں کے تقریباً 91 ہزار ملازمین کی چھٹی کر دی جائے۔
اس میٹنگ کی جانکاری رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت ان دونوں سرکاری کمپنیوں کے پوری طرح ’ڈِس انویسٹمنٹ‘ کے حق میں ہیں، تاکہ نجی ٹیلی کام آپریٹروں کو موقع مل سکے۔ امیتابھ کانت ڈی سی سی کے جزوقتی رکن بھی ہیں۔ ڈی سی سی میں حکومت کی کئی وزارتوں کے سکریٹری شامل ہیں۔
لیکن اس تجویز سے دونوں کمپنیوں کے ملازمین بے حد غصے میں ہیں۔ ایم ٹی این ایل (دہلی-ممبئی) کی ٹیلی کام ایگزیکٹیو ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری اے کے کوشک نے وی آر ایس کے لیے 8500 کروڑ روپے جمع کرنے کی دلیل پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پیسے سے دونوں کمپنیوں کاانفراسٹرکچر بہتر کیا جا سکتا ہے، ساتھ ہی 4جی اسپیکٹرم بھی خریدا جا سکتا ہے۔
دہلی کے قدوائی بھون میں ایم ٹی این ایل ملازمین کی موجودگی میں ’نیشنل ہیرالڈ‘ کے ساتھ بات چیت میں کوشک نے کہا کہ ’’حکومت 16000 ملازمین کو اگلے پانچ سال میں ریٹائر کرنا چاہتی ہے، دراصل یہ وی آر ایس کا گجرات ماڈل ہے۔ آخر وہ اس پیسے سے 4 جی اسپیکٹرم کیوں نہیں خریدتے جس کا مطالبہ ملازمین طویل مدت سے کر رہے ہیں۔‘‘
کوشک نے گجرات ماڈل کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس منصوبہ کے تحت جن ملازمین کو ملازمت سے نکالا جائے گا انھیں ان کی سروس کے ہر سال کے بدلے 35 دن کی تنخواہ دی جائے گی اور ان کی ملازمت کے جتنے سال بچے ہیں ان سالوں کا ہر سال کا 20 دن کا تنخواہ دیا جائے گا۔ کوشک نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ایم ٹی این ایل کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے۔ ان کے مطابق مودی حکومت سے کوئی مدد نہ ملنے کے باوجود ایم ٹی این ایل کا خزانہ 18-2017 میں کافی بہتر رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’14-2013 میں ہمارا خزانہ تقریباً 8000 کروڑ تھا، جو کہ 18-2017 میں گر کر تقریباً 3000 کروڑ کے آس پاس آ گیا۔ حکومت نے ہمیں کسی طرح سے مدد نہیں کی۔ بھلے ہی یہ سرمایہ کا معاملہ تھا یا پھر 4جی اسپیکٹر م دستیاب کرانے کا۔‘‘ انھوں نے میڈیا کی ان رپورٹس کو بھی خارج کیا جس میں کہا جا رہا ہے کہ خزانہ کا 90 فیصد ملازمین کی تنخواہ پر خرچ ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت صرف نجی ٹیلی کام آپریٹروں کو فائدہ پہنچا رہی ہے اور ان سرکاری ملازمین کو نظر انداز کر رہی ہے۔
کوشک کے مطابق ’’گزشتہ 4-3 سال سے دونوں کمپنیوں کو ملازمین کی تنخواہ کے لیے حکومت سے قرض لینا پڑ رہا ہے اور جو بھی خزانہ آ رہا ہے اس سے انتظامی خرچ بھی نہیں نکل پا رہا ہے۔‘‘ انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت ہمیں نجی کمپنیوں سے مقابلہ کرنے ہی نہیں دے رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں 4جی اسپیکٹرم نہ دینا اس حکومت کے اس ڈیزائن کا حصہ ہے جس میں سرکاری کمپنیوں کو دھیرے دھیرے ختم کیا جا رہا ہے۔‘‘ کوشک فی الحال یونین کے جنرل سکریٹری ہیں، اس سے پہلے وہ ٹیلی مواصلات محکمہ میں بھی 26 سال کام کر چکے ہیں۔
ایم ٹی این ایل کی ایک خاتون ملازم نے بتایا کہ حکومت کو ہماری فکر کی پروا نہیں ہے اور وہ ’وی آر ایس‘ کا دباؤ بنا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے مودی حکومت کی منشا ٹھیک نہیں ہے۔ دوسری طرف آل انڈیا بی ایس این ایل ایگزیکٹیو ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری پرہلاد رائے نے بھی مودی حکومت کے ’وی آر ایس‘ منصوبہ کو خارج کر دیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’گزشتہ ہفتہ سے بی ایس این ایل ملازمین تین دن کی ہڑتال پر گئے ہیں، ان کا مطالبہ 4جی اسپیکٹرم مہیا کرائے جانے کا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اب ایم ٹی این ایل اور بی ایس این ایل مل کر اس تحریک میں ساتھ ہیں۔
پرہلاد رائے کا کہنا ہے کہ ’’حکومت قصداً ہمارے لیے مالی رخنہ اندازی کر رہی ہے تاکہ ہم پریشانی سے نکل نہ سکیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ 4 جی اسپیکٹرم نہ ہونے کے باوجود بی ایس این ایل کے گاہکوں کی تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے۔ بدھ کو ’ٹرائی‘ کے ذریعہ جاری اعداد و شمار کے مطابق بی ایس این ایل نے دسمبر ماہ میں ہی 5.5 لاکھ نئے گاہک جوڑے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔