ترقیاتی رفتار بڑھانے میں ناکام مودی حکومت نے منموہن حکومت کی شرح ترقی کر دی کم
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بعد پٹری سے اتری معیشت جب دو سال میں بھی رفتار نہیں پکڑ سکی تو مرکز کی مودی حکومت نے شرح ترقی کی پیمائش کا پیمانہ ہی بدل دیا۔
پٹری سے اتری معیشت، چھوٹی اور درمیانی صنعت کی بری حالت، بے روزگار نوجوانوں کا غصہ، آر بی آئی سے رسہ کشی اور متحد اپوزیشن کے زبردست حملوں سے بے حال مرکز کی مودی حکومت نے وہ کام کیا ہے جسے کسی بھی معنوں میں نہ تو اخلاقی قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مدلل۔
لوک سبھا انتخاب سے ٹھیک پہلے مرکزی حکومت نے گزشتہ سالوں کے جی ڈی پی اعداد و شمار سامنے رکھے اور یو پی اے دور میں ہوئی ترقی کو گھٹا کر پیش کر دیا۔ مرکزی حکومت نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس کے بعد یو پی اے حکومت کے دوران جی ڈی پی کے اعدد و شمار میں 1 سے 2 فیصد تک کی کمی آگئی۔
دراصل بدھ کے روز مرکزی حکومت نے جی ڈی پی سے متعلق گزشتہ 10 سال کا ڈیٹا جاری کیا ہے۔ نیتی آیوگ کے نائب سربراہ راجیو کمار نے پریس کانفرنس کر ان اعداد و شمار کو جاری کیا۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے جی ڈی پی اعداد و شمار کے لیے سال 05-2004 کو بنیاد بنانے کی جگہ سال 12-2011 کی بنیاد پر امینڈمنٹ کیا ہے۔ اس امینڈمنٹ یعنی ترمیم کے بعد منموہن حکومت کی شرح ترقی میں ایک سے دو فیصد تک کی کمی آ گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ شرح ترقی کی پیمائش کا نیا فارمولہ ایجاد کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد پر شرح ترقی میں گراوٹ سامنے آئی ہے۔
یو پی اے حکومت کے دور کی شرح ترقی گھٹائے جانے پر کانگریس نے تلخ رد عمل دیا ہے۔ کانگریس نے ایک بیان میں کہا کہ ’’مودی حکومت اور اس کی کٹھ پتلی نیتی آیوگ کو لگتا ہے کہ 2 اور 2 آٹھ ہوتے ہیں۔ یہی ان کا دکھاوٹی پن، چالبازی، غلط فہمی پھیلانے کا کاروبار ہے جسے بیک ڈیٹا کے طور پر فروخت کیا جا رہا ہے۔‘‘
سابق وزیر مالیات پی چدمبرم نے تو مرکزی حکومت کے اس قدم کو بھدّا مذاق تک کہہ دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’نیتی آیوگ کے ذریعہ جاری ترمیم شدہ جی ڈی پی کا اعداد و شمار کسی بھدّے مذاق کی طرح ہے۔‘‘ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس بے کار ادارہ کو بند کر دینا چاہیے۔
دوسری طرف کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا کا کہنا ہے کہ ’’ناکام ’مودی نامکس‘ اور ’پکوڑا اکونومک ویژن‘ کی وجہ سے ملک کی معیشت بری طرح لڑکھڑا چکی ہے۔ ایک تاناشاہ وزیر اعظم اور ایک بے خبر ماہر معیشت کے ذریعہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلوں نے معیشت میں اتھل پتھل مچا رکھی ہے۔‘‘ سروجے والا نے کہا کہ جب معیشت ان کے ہاتھ سے پھسل گئی تو انھوں نے فرضی واڑا کر گزشتہ حکومت کے دور کی شرح ترقی کو گھٹانے کا کام شروع کر دیا ہے۔
سرجے والا مزید کہتے ہیں کہ قومی اسٹیٹسٹکس کمیشن کے اعداد و شمار کو بدلنا ایک اور خود مختار ادارہ کی آزادی کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔انھوں نے کہا کہ جی ڈی پی کے بیک سیریز اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرنے سے مودی حکومت کے خاتمے کی تاریخ نہیں بدل سکتی۔ سرجے والا نے مودی حکومت میں جی ڈی پی کی نئی تعریف بتاتے ہوئے کہا کہ اب اس کا مطلب ’گمکری ڈاٹا پروجیکٹ‘ (فرضی ڈاٹا) ہوتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Nov 2018, 12:09 PM