زراعت میں شرح ترقی زوال پذیر لیکن حکومت ماننے کو تیار نہیں

سی ایس او نے18-2017 میں زراعت، فاریسٹری، ماہی پروری شعبہ میں ترقی کی شرح 4.9 سے گر کر 2.1 تک آنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھاشا سنگھ

بین الاقوامی سطح پر جب ہندوستان کی شرح ترقی سے متعلق بہت ہی خوشنما تصویر پیش کی جا رہی ہے تو ایسے میں ملک کی معیشت کا تجزیہ کرنے والے ادارہ سی ایس او کے اعداد و شمار میں کئی اہم شعبوں میں ترقی کی شرح میں زبردست زوال دکھایا جا رہا ہے۔ ان اعداد و شمار سے پریشان مرکزی حکومت خود اپنے ہی ادارے کی رپورٹ کو خارج کرنے کے لیے مجبور ہو گئی ہے۔

زراعت میں شرح ترقی زوال پذیر لیکن حکومت ماننے کو تیار نہیں

سنٹرل اسٹیٹسٹک آفس (سی ایس او) نے سال 2017-18 کی ترقی کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں اسے وزارت زراعت نے خارج کر دیا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب مرکزی حکومت نے اپنے ہی ادارہ کی رپورٹ کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ سی ایس او نے 2017-18میں زراعت، فاریسٹری، ماہی پروری شعبہ میں ترقی کی شرح کو 4.9 سے گر کر 2.1 تک آنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ یعنی اس شعبہ میں بحران اتنا گہرا ہے کہ شرح ترقی نصف سے بھی کم ہونے کا امکان ہے۔ ملک بھر میں کسانوں کی بڑھتی ناراضگی سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ زراعت کا شعبہ بحران کا شکار ہے اور سنبھالے نہیں سنبھلنے والا۔

قابل ذکر ہے کہ سی ایس او کے ہی اعداد و شمار کی بنیاد پر ترقیات سے متعلق سبھی اندازے، جی ڈی پی سے لے کر معیشت کی صحت کا حال کاپتہ چلتا ہے۔ سی ایس او کے اس اعداد و شمار کو وزارت زراعت نے خارج کرنے کے لیے ایسی دلیل تیار کی ہے جس نے ملک بھر میں زراعتی سائنسدانوں کو پریشان کر دیا ہے۔ وزارت برائے اسٹیٹسٹکس اینڈ پروگرام امپلیمنٹیشن (ایم او ایس پی آئی) نے سی ایس او کے ذریعہ اعداد و شمار جمع کرنے پر ہی سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔ وزارت نے خریف اور ربیع کی رپورٹ کو بنیاد بنانے میں ہوئی غلطی کو سیدھے طور پر ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

اس سلسلے میں کیرالہ میں زراعتی یونیورسٹی میں ڈائریکٹر ڈاکٹر پی اندرا دیوی نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ حکومت کا یہ قدم بے حد شرمناک ہے۔ زمینی سطح پر حالات اتنے خراب ہیں کہ انھیں بہتر بنانے کی جگہ غلط طریقے سے دلیلیں پیش کی جا رہی ہیں۔ سی ایس او کے ڈاٹا پر ہی سبھی منحصر ہوتے ہیں۔ اسے حاصل کرنے کا بھی ایک طے شدہ اور مستحکم عمل ہے۔ اب جب معیشت اور وہ بھی زرعی معیشت گہرے بحران میں پھنس گئی ہے تو حکومت اپنے ہی ادارہ پر شک کر رہی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ملک میں غریبوں کی تعداد بڑھنے لگی تو خط افلاس کو ناپنے کے طور طریقوں کو ہی بدل دیا گیا۔ شرح ترقی کو ناپنے کے طور طریقوں میں بھی اسی طرح کی دھاندلی کی جا رہی ہے۔ ملک کو اس طرح غلط فہمی کا شکار بنانے کی کوششیں بے حد افسوسناک ہیں۔

زراعتی معاملوں کی ماہر کویتا کرونتھی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ زراعت اور کسان جس مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور پریشانی میں پھنستے جا رہے ہیں اس پر اس طرح کے جھوٹ کا پینٹ کر کے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بحران سے نمٹنے کی جگہ حکومت اس طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے، یہ شرمناک ہے۔ ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ کسی بھی اعداد و شمار پر لوگ یقین نہیں کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔