جس چینی ٹیلی کام کمپنی پر کئی ممالک نے لگائی پابندی، مودی حکومت نے کھول دئیے دروازے

مودی حکومت نے ٹیلی کام سیکٹر میں بھی سیکورٹی کو طاق پر رکھ دیا ہے۔ جس چینی کمپنی پر امریکہ سمیت کئی ممالک نے پابندی عائد کر دی ہے، اس کے لیے پی ایم نے اپنے ’دِل‘ اور ’ملک‘ دونوں کے دروازے کھول دئیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

دھیریا ماہیشوری

’ہوائی‘ دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کام سیکٹر کمپنی ہے تو اسمارٹ فون فروخت کرنے کے معاملے میں وہ دوسری سب سے بڑی کمپنی ہے۔ کمپنی ہندوستانی نیٹورک آپریٹروں کے ساتھ قرار کر کے اس سال کے آخر تک شروع ہونے والی 5جی خدمات کا ٹرائل کرے گی۔ امریکہ کے علاوہ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جاپان اور تائیوان نے اس کمپنی پر پابندی لگا رکھی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے حال ہی میں ساتھی ممالک کو آگاہ بھی کیا ہے کہ اگر ہوائی امریکہ سے گہرے اسٹرٹیجک رشتوں والے ساتھی ممالک میں پیر جماتی ہے تو اس کے سبب امریکہ سے اس ملک کے رشتے مشکل میں پھنس جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاون ممالک اس کمپنی کی چیزوں کے استعمال سے جڑے مسائل کو سمجھیں۔

لیکن نریندر مودی کی قیادت والی حکومت میں قومی سیکورٹی سے کہیں زیادہ اہمیت چین کے ساتھ رشتہ ہے۔ ٹیلی مواصلات محکمہ اور سرکاری کمپنی بی ایس این ایل کے افسران نے ’قومی آواز‘ کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ ملک کی سیاسی قیادت ہوائی کی مشینوں کے استعمال کے حق میں ہیں جب کہ قومی سیکورٹی کے مدنظر اس کمپنی کی مشینوں کے استعمال کو لے کر وقت وقت پر حکومت کو متنبہ کیا جاتا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق ملک کے کئی افسروں نے حکومت کو کئی مواقع پر آگاہ کیا ہے کہ ہوائی کے چین کی فوج پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) سے گہرے رشتے ہیں۔ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ کمپنی کے بانی رین جھینگ فیئی چین کی فوج میں انجینئر رہ چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ ساری حساس باتوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ چین سے رشتے سدھارنے کے نام پر اتنا بڑا سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔‘‘

افسروں کا کہنا ہے کہ ڈوکلام معاملہ ٹھنڈا پڑنے کے فوراً بعد ستمبر 2017 میں بی ایس این ایل نے ایک دوسری چینی ٹیلی کام بنانے والی زیڈ ٹی ای کے ساتھ 5 جی کے تجربے کا قرار کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی ایوان سے جڑی خفیہ کمیٹی نے 2012 میں جاسوسی کے الزام میں ہوائی کے ساتھ زیڈ ٹی ای کے خلاف بھی جانچ پڑتال کی تھی۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ زیڈ ٹی ای کو خاص طور پر چین کا ائیرو اسپیس وزارت فنڈ کرتا ہے تاکہ وہ دوسرے ممالک کی جاسوسی کر سکے۔

خفیہ محکمہ سے جڑے ذرائع نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ شفافیت کے تمام دعووں کے درمیان ہوائی کمپنی کے کام کا طریقہ بے حد رازدارانہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی اس کمپنی نے بنگلورو میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سنٹر بنا رکھا ہے اور اس کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں ہندوستانیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ ہندوستان میں یہ غیر ملکی ریسرچ سنٹر اینڈ ڈیولپمنٹ سنٹرس میں سب سے بڑا ہے۔

یو پی اے حکومت کے دوران ہوائی کے لیے راہیں تھیں مشکل

یو پی اے-2 کے دور میں منموہن حکومت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کام کے ریاست وزیر رہیں ڈاکٹر کرپا روی کلّی نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت میں کہا کہ ہوائی ان کمپنیوں میں شامل تھی جنھوں نے ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے تیار کیے جا رہے ایک منصوبہ کے لیے مشینوں کی سپلائی کا ٹنڈر ڈالا تھا۔ ڈاکٹر کلّی کہتی ہیں ’اس سے پہلے کی اس پر کوئی فیصلہ ہو پاتا، ہماری حکومت چلی گئی۔‘‘

غور طلب ہے کہ فروری 2014 میں ڈاکٹر کلّی نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ بی ایس این ایل کے نیٹورک کو ہیک کرنے کے معاملے میں ہوائی کے خلاف جانچ کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’اس سے پہلے بھی ہوائی پر بڑے سوال کھڑے ہوئے تھے۔‘‘

سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے کئی ممالک کو ایک خفیہ رپورٹ بھیج کر دعویٰ کیا تھا کہ ہوائی اور زیڈ ٹی ای سائبر نیٹورک میں بَگ ڈال کر اہم اطلاعات چرا رہی ہیں۔ سابق وزیر کا کہنا ہے کہ ’’یہ درست ہے کہ چین کی ٹیلی مواصلات مشینیں سسکو اور ایرکسن جیسی کمپنیوں کے پروڈکٹس کے مقابلے میں کافی سستی ہیں، لیکن ہماری حکومت نے انھیں اجازت دینے کے معاملے میں کافی احتیاط برتی۔‘‘

2005 میں یو پی اے-1 حکومت نے ہندوستانی آپریٹروں کو کھلے طور پر سمجھا دیا تھا کہ ہوائی اور زیڈ ٹی ای ان کے نیٹورک میں مالویئر اور اسپائی ویئر ڈال سکتی ہیں، اس لیے چین سے ٹیلی مواصلات مشین کی برآمد کے معاملے میں خاصی احتیاط برتیں۔

2009 میں دوبارہ حکومت بنانے کے بعد یو پی اے حکومت نے ہوائی کے ساتھ ہندوستانی ٹیلی مواصلات آپریٹروں کے درمیان ہوئے کئی معاہدے کو رَد کر دیا تھا۔ اس کے بعد چین نے زبردست طریقے سے لابینگ کرتے ہوئے ہندوستان کو چینی مشنریوں کی معتبریت کے تئیں پراعتماد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس وقت کی کانگریس حکومت محتاط ہو چکی تھی اور اسی وجہ سے ٹیلی مواصلات محکمہ نے دو الگ الگ گائیڈ لائنس طے کیے۔ چین کی کمپنیوں کے لیے پیمانہ کافی سخت رکھا گیا تھا جب کہ مغربی ممالک کی کمپنیوں کے لیے قوانین و ضوابط میں نرمی تھی۔ لیکن مودی حکومت نے یہ پیمانہ پھر بدل دیا ہے جس سے ہوائی ہندوستان میں اپنا پیر پھیلاتی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Feb 2019, 6:10 PM