بے روزگار ہو تو پکوڑے بیچو: مودی

نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے ملک کو کتنا فائدہ ہوا مودی نے اس کا معقول جواب نہیں دیا اور بے روزگاری پر سوال ہوا تو انہوں نے الٹا سوال کیا کہ کوئی سڑک پر پکوڑے بیچ رہا ہے توکیا اسے روزگار نہیں کہیں گے!

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: بی جے پی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے اقتدار کی 70 فیصد مدت ختم ہو جانے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا تو تقریباً انہوں نے ہرمدے پر اپنی بات رکھی لیکن تین ایسے سوال تھے جن کو وہ ٹال گئے۔

چینل کے اینکر نے جب وزیر اعظم سے سوال کیا کہ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی سے وہ کتنے کامیاب رہے اور جو ہدف انہوں نے طے کیا تھا وہ کس حد تک پورا ہوا؟ یہ پوچھے جانے پر مودی نے جواب دیا ’’اگر ان دونوں کو ہی میری حکومت کا کام تصور کیا جائے گا تو یہ ناانصافی ہوگی۔ ہمارے چار سال کے کام کو دیکھیں۔ ملک میں بینکوں کو قومی بنائے جانے کے بعد بھی 30-40 فیصد افراد بینک نظام سے باہر تھے۔ ہم انہیں اس نظام میں لے کر آئے۔ کیا یہ کامیابی نہیں؟ ‘‘ علاوہ ازیں وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے لڑکیوں کے لئے بیت الخلائیں بنوائیں، 3.30 کروڑ لوگوں تک گیس (ایل پی جی) پہنچائی، لوگوں کے بیمے کرائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جہاں تک جی ایس ٹی کا سوال ہے تو اس پر بحث اٹل جی کے وقت سے شروع ہوئی۔ یو پی اے حکومت میں ریاستوں کی نہیں سنی جاتی تھی۔ ایک ملک، ایک ٹیکس کی سمت میں ہم نے کامیابی پائی۔ طویل مدت میں دیکھا جائے تو جی ایس ٹی کا فائدہ ملے گا۔ ‘‘ تمام طرح کی باتیں کرنے کے باوجود وزیر اعظم یہ بتانے سے قاصر رہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے حوالہ سے ان کے جو اہداف تھے وہ پورے ہوئے یا نہیں۔

اسی طرح جب اینکر نے یہ سوال کیا کہ آپ نے ہر سال ایک کروڑ روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا تو اس سوال سے مودی کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اس کے بعد اینکر نے اپنا سوال تبدیل کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے کس طرح لوگوں کی زندگی کو تبدیل کیا؟ اس سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ غیر جانبدار ایجنسی کی رپورٹ آئی ہےکہ پچھلے ایک سال میں 70 لاکھ افراد ای پی ایف کے دائرے میں شامل ہوئے۔ یہ سب غیر رسمی شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ 10 کروڑ افراد کو’مدرا ‘ منصوبہ کے تحت 4 لاکھ کروڑ سے زیادہ روپے دئے گئے جن میں سے 3 کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں پہلی بار بینک سے پیسہ ملا۔

یہاں یہ جان لینا بے حد ضروری ہے کہ جن 70 لاکھ نئے لوگوں کے ای پی ایف کے دائرہ میں آنے کی بات نریندرمودی کر رہے ہیں وہ تمام ملازمین 2009 سے 2006 کے بیچ کسی نہ کسی کمپنی میں کام کر رہے تھے۔ در اصل حکومت نے ایک اسکیم کے تحت کمپنیوں سے کہا تھا کہ 2009 سے 2016 کے بیچ جو ملازمین بغیر ای پی ایف ملازمت کر رہے ہیں ان کی نامزدگی اس میں کرائی جائے، نہیں تو کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

اعداد وشمار پر نظر ڈالنے کے بعد ای پی ایف میں نامزدگیوں کا جو ڈھنڈورہ حکومت کی طرف سے پیٹا جا رہا ہے اس کی حقیقت کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم نے سوالوں کے بڑے عجیب وغریب جواب دئے۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینل کے باہر کوئی شخص اگر پکوڑا بیچ رہا ہے تو وہ روزگار ہوا یا نہیں؟

سوشل میڈیا پر مذاق

وزیر اعظم کے انٹرویو کا سوشل میڈیا پر کافی مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ جے این یو طلبہ تنظیم کی سابق نائب صدر شہلا رشید نے لکھا ’’یو ں تو یہ انٹرویو پہلے سے طے تھا پھر بھی مودی نے کسی سوال کا جواب صحیح سے نہیں دیا۔ ‘‘

یہ سچ ہے کہ وزیر اعظم جیسے عہدے پر فائز کسی بھی شخص سے پوچھے جانے والے سوالات پہلے سے طے ہوتے ہیں لیکن ضرورت سے زیادہ احتیاط کسی بھی انٹرویو کے غیر جانبدار ہونے پر سوال کھڑے کرتی ہے۔ اسی حوالہ سے سوشل میڈیا پر لوگوں نے مودی کو ان کے اس انٹرویو کی یاد دلائی جو انہوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے کرن تھاپر کو دیا تھا۔ وہ انٹرویو پورا بھی نہیں ہو پایا تھا کہ نریندرمودی پانی پینے کے بعد انٹرویو کو چھوڑ کرچلے گئے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Jan 2018, 2:22 PM