سی بی آئی بمقابلہ سی بی آئی: نریندر مودی نے گجرات سے آگے کبھی سوچا ہی نہیں

وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سی بی آئی میں اس طرح تبدیلی کی کہ ان کے اور بی جے پی سربراہ امت شاہ کے تئیں وفاداری رکھنے والے لوگ ایجنسی میں اہم کردار نبھائیں۔

tتصویر سوشل میڈیا
tتصویر سوشل میڈیا
user

اتم سین گپتا

سی بی آئی ڈائریکٹر عہدہ سے انل سنہا کے ریٹائر ہونے سے قبل ہی اسپیشل ڈائریکٹر رہے 1981 بیچ کے آئی پی ایس افسر روپک کے. دتہ کو مرکزی وزارت داخلہ میں شفٹ کر دیا گیا۔ دتہ کا سی بی آئی میں 17 سالوں کا تجربہ تھا۔ انھیں دائریکٹر بنانے سے انکار کر دیا گیا۔ اس وقت حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ دتہ کو جن شعبوں میں مہارت ہے اس حساب سے قومی مفاد میں ان کی ضرورت وزارت میں ہے۔ لیکن کچھ ہی مہینے بعد انھیں ان کے کیڈر کرناٹک میں بھیج دیا گیا۔ وہاں وہ ڈی جی پی بھی بنائے گئے۔

پی ایم او گجرات کیڈر سے کئی پولس افسروں کو سی بی آئی میں لے آیا۔ ان میں ارون کمار شرما اور راکیش استھانا تو ہیں ہی، وائی سی مودی بھی ہیں جو اس وقت این آئی اے سربراہ ہیں۔ جب انل سنہا ریٹائر ہوئے تو استھانا کو عبوری سی بی آئی ڈائریکٹر بھی بنا دیا گیا، جب کہ وہ 1984 بیچ کے افسر ہیں اور اس عہدہ کے لیے کافی جونیئر تھے۔

پی ایم او نے لوک سبھا میں کانگریس لیڈر ملکارجن کھڑگے کے اعتراض کو درکنار کر دیا اور دہلی کے پولس کمشنر آلوک ورما کو فروری 2017 میں نیا سی بی آئی ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ کھڑگے نے یہ بات اٹھائی تھی کہ ورما نے کبھی سی بی آئی میں اپنی خدمات نہیں دی ہیں اس لیے وہ اس عہدہ کی قابلیت نہیں رکھتے۔

پی ایم او نے اکتوبر 2017 میں سی بی آئی ڈائریکٹر کے اعتراض کو خارج کر دیا اور استھانا کو خصوصی ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ ڈائریکٹر نے ایمانداری کا ایشو اٹھایا تھا اور اشارہ دیا تھا کہ ان پر بدعنوانی کے الزامات ہیں، جن کی سی بی آئی جانچ کر رہی ہے۔ سی وی سی نے تقرری کو ہری جھنڈی دے دی۔ اس تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا، لیکن اس نے کسی مداخلت سے منع کر دیا۔

ستمبر 2018 میں راکیش استھانا نے کابینہ سکریٹری اور سی وی سی کو ڈائریکٹر کے خلاف کم از کم تین درخواست دیں۔ ان میں شکایت کی گئی تھی کہ ڈائریکٹر انھیں جان بوجھ کر پریشان کر رہے ہیں۔ انھوں نے ورما کے خلاف بدعنوانی کے الزام بھی لگائے۔ پی ایم او کے پاس اس وقت ٹائم تھا کہ وہ مداخلت کرتا اور آگ کو ٹھنڈا کر دیتا۔ لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہا۔

سی بی آئی نے اپنے ہی خصوصی ڈائریکٹر کے خلاف رشوت خوری کے لیے ریگولر کیس (آر سی) درج کیا ہے۔ اس میں گرفتاری نہیں تو کم از کم سسپنسن تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ لیکن پی ایم او نے دخل دیا۔ یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ یو پی اے دور حکومت کے دوران وزیر قانون اشونی کمار کو صرف اس وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا کہ انھوں نے ایک معاملے میں سپریم کورٹ میں ایجنسی کے ذریعہ داخل کی جانے والی فائل کے ساتھ سی بی آئی ڈائریکٹر کو اپنے پاس بلوا لیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔