دہلی میں بھی تشدد کی آگ بھڑکانے کی کوشش، مسجد کے باہر اشتعال انگیز نعرے
پورا ملک اس وقت فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں ہے۔ بنگال بہار گجرات اور راجستھان سے مسلسل تشدد کے واقعات سامنے آ رہے ہیں اور شرپسند اب قومی راجدھانی دہلی کو بھی تشدد کی آگ میں جھلسانے پر آمادہ ہیں۔
نئی دہلی: شرپسندوں نے دہلی کے منڈاولی علاقہ میں ہاتھوں میں ننگی تلواریں لے کر ہنومان جینتی کے ایک دن بعد ہنومان کا جلوس نکالا اور یہاں واقع محمدی مسجد پر اشتعال انگیز نعرے بازی کی۔ یہ گروہ تقریباً 10سے 15 منٹ تک کھلے عام تلواریں اور دیگر ہتھیار لئے ہوئے تھا جو نعرےبازی کرتے ہوئے اور دھمکیاں دیتے ہوئے یہ آگے چلا گیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جلوس کے ساتھ چند پولس اہلکار بھی چل رہے تھے یہاں تک کہ پولس کی ایک گاڑی بھی جلوس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی (حالانکہ اس میں ڈرائیور کے علاوہ کوئی دیگر اہلکار موجود نہیں تھا)۔ لیکن پولس نے شرپسندوں کی نعرے بازی کو نہیں رکوایا۔ یہ گروہ مسجد کے گیٹ پر پٹاخے چھوڑتا رہا، دھمکیاں دیتا رہا اور ہنگامہ آرائی کرتا رہا لیکن پولس محض تماشائی بنی رہی۔ مسجد کی دیواروں پر پٹاخوں سے نکلا ہوا رنگ ابھی تک دیکھا جا سکتا ہے۔
اس واقعہ کی وجہ سے علاقہ کے مسلمانوں میں زبردشت دہشت پھیل گئی۔ آنا فانا میں پولس کو اطلاع دی گئی اور پولس موقع پر پہنچی۔منڈاولی تھانہ میں جب یہ دریافت کرنے کے لئے کال کی گئی کہ جلوس نکالنے کی اجازت تھانے سے لی گئی تھی یا نہیں تو پہلے تو وہاں سے کہا گیا کہ کنٹرول روم کال کر کے پتہ کریں، اور جب کنٹرول روم میں کال کی گئی تو وہاں سے کہا گیا کہ وہیں منڈاولی تھانہ سے معلوم کریں۔ اس کے بعد دوبارہ جب منڈاولی تھانہ میں کال ملائی گئی تو کہا گیا کہ ایس ایچ او صاحب موقع پر گئے ہوئے ہیں وہ ہی اس کے بارے میں کچھ بتا پائیں گے، یہ بھی کہا گیا کہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
یہ سب کچھ ہو جانے کے تھوڑی دیر بعد جلوس میں جانے والے شرپسند تلواریں لے کر پھر سے واپس آ گئے اور انہوں نے پھر سے نعرے بازی کی کوشش کی۔ موقع پر موجود پولس نے ان سے تلوارایں ضبط کر لیں اور دو افراد کو پولس گاڑی میں بیٹھا لیا۔ نعرے بازی کے ملزمین کو دیکھ کر مسلم طبقہ مشتعل ہو گیا اور پولس کی گاڑی کو مسلمانوں نے روکنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں دونوں ملزمین کو لے کر پولس چلی گئی۔ ملزمین کو کہا لے جایا گیا اس کی کسی کو خبر نہیں کیوں کہ جب تھانہ میں کال کر کے پوچھا گیا کہ ان کو حراست میں لیا گیا ہے یا نہیں تو یہ معلومات تھانہ سے نہیں دی گئی اور کہا گیا کہ جو پولس اہلکار موقع پر گئے تھے وہ ابھی واپس نہیں پہنچے ہیں۔
منڈاولی علاقہ کے حالات اس وقت بہت سنگین ہو چلے ہیں۔ مسلم طبقہ میں اس بات کو لے کر بے چینی ہے کہ مسجد کے سامنے قابل اعتراض نعرے بازی کی گئی اور جان سے مانے اور سر کاٹنے کی دھمیاں دی گئیں۔
واقعہ کے وقت موقع پر موجود مقامی باشندہ فیروز خان کا کہنا ہے کہ ’’جس طرح کی نعرے بازی وہ شرپسند کر رہے تھے اگر ایک بھی مسلم نوجوان انہیں ٹوک بھی دیتا تو فساد بھڑکنے کا پورا اندیشا تھا۔ ‘‘
ساجد سیفی کا کہنا ہے ’’جلوس کے پیچھے پیچھے چل رہی گاڑی کو چلا رہے پولس اہلکار سے جب میں نے پوچھا کہ آپ انہیں روک کیوں نہیں رہے تو اس نے کہا کہ جلوس میں اتنا تو ہوتا ہی ہے۔ یہ معمولی بات ہے۔‘‘
محمد عمران کا کہنا ہے کہ ’’بنگال، بہار اور راجستھا ن میں جس طرح فساد پھیلایا گیا ہے یہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے پاس ووٹ حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ سارے ملک کے بعد اب یہ راجدھانی دہلی کی فضا بھی خراب کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Apr 2018, 4:59 PM