مرزا غالبؔ: یوم پیدائش پر بر صغیر اور دنیا بھر کی اردو بستیوں میں جشن
مرزا اسد اللہ بیگ خان غالب اردو زبان کے ایک عظیم شاعر ہی نہیں ایک ایسی عوامی شخصیت بھی تھے جن تک عام رسائی لوگوں کے کے لئے کبھی دشوار نہیں رہی۔
بر صغیر اور دنیا بھر کی اردو بستیوں میں آج اردو کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ بیگ خان غالب کے 221 ویں یوم پیدائش کا جشن منایا جا رہا ہے۔
مرزا اسد اللہ بیگ خان غالب (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے ایک عظیم شاعر ہی نہیں ایک ایسی عوامی شخصیت بھی تھے جن تک عام رسائی لوگوں کے لئے کبھی دشوار نہیں رہی۔
اپنے عہد کو اپنی صدی کی پہچان بنانے والے غالب کی اس انفرادیت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔
غالب کو جس پرآشوب دور کا عینی شاہد بننا پڑا اس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ غالب کی شاعری میں تشکیک پسندی کا پہلو بہت اہم ہے۔ جو بحیثیتِ مجموعی غالب کی شاعری کے رگ و پا میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج ہے۔ جبکہ دوسری وجہ وہ ماحول جس میں غالب نے آنکھ کھولی، وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اُن کی تشکیک پسندی کو مزید تقویت ملی۔
کہتے ہیں:
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کا اصل نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبد اللہ بیگ تھا۔ دسمبر 1797 میں آج ہی کے دن وہ آگرہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں یتیم ہو گئے۔ ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810 میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے ہو گئی، شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔
امور خانہ داری میں مالی مشکلات کی وجہ سےجب ان پر قرض کا بوجھ حد سے سوا بڑھنے لگا تو غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کرلی اور 1850 میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔ اس کا اظہار غالب نے شاعرانہ طور پر یوں کیا:
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئےکہ کہتے تھے نوکر نہیں ہیں ہم
انقلاب 1857 کے بعد مرزا کے لئے نواب یوسف علی خاں والی رامپور نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو زندگی بھر ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869 کووہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
سید الاخبار کے لیتھو گرافک پریس دہلی سے غالب کا اردو دیوان ان کی زندگی کے دوران میں پہلی بار اکتوبر 1841 میں چھپا تھا۔ ہندستانی اور پاکستانی سنیما نے بالترتیب 1954 اور 1961 میں مرزا غالب پر اولین فلمیں بنا کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا، ہندستانی مرزا غالب میں بھارت بھوشن نے اور پاکستانی مرزا غالب میں اس وقت کے پاکستانی سپر اسٹار سدھیر نے مرزا غالب کا کردار ادا کیا۔ ہندستانی فلم میں غالب کی معشوقہ کا رول ثریا جہاں نے ادا کیا تھا وہیں پاکستانی فلم میں ملکہ ترنم نورجہاں کو یہ شرف حاصل رہا۔1988 میں ہندوستان میں گلزار نے مرزا غالب ٹیلی سیریل میں غالب کے کردار میں نصیر الدین شاہ کی خدمات حاصل کیں۔
غالب کے ان اشعار کو شاید کبھی فراموش نہ کیا جائے:
اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غاؔلب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
قید حیات و بند غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Dec 2018, 3:10 PM