اقلیتی درجہ: اے ایم یو کے پروفیسروں اور طلبا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا کیا خیرمقدم، اہم سنگ میل قرار دیا

اے ایم یو کے پروفیسروں اور طلبا نے ادارے کے اقلیتی درجے کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ پروفیسروں نے فیصلے کو سراہا اور طلبا نے اسے اپنے حق میں ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے پروفیسروں اور طلبا نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا دل سے خیرمقدم کیا ہے، جس میں ایم یو کو اقلیتی ادارہ قرار دیتے ہوئے اس کا درجے کو برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بینچ نے 4-3 کے تناسب سے اس فیصلے کی حمایت کی۔ اس فیصلہ کو اے ایم یو کے پروفیسروں اور طلبا نے خوش آئند قرار دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی ادارہ کے قیام کی بنیاد پر اس کا اقلیتی کردار متعین نہیں کیا جا سکتا اور اس بات پر زور دیا کہ ایک ادارہ اپنے مقاصد اور انتظامی اصولوں کے مطابق اقلیتی حیثیت حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم اے ایم یو کے اقلیتی کردار پر حتمی فیصلے کے لیے تین ججوں کی ایک نئی بنچ تشکیل دی گئی ہے۔

اے ایم یو کے پروفیسر محمد آصف صدیقی نے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک طویل قانونی جنگ تھی لیکن ہم نے اس کیس کی تیاری بہت محنت سے کی تھی۔ اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمیشہ ہندوستانی عدلیہ پر ہمارا اعتماد تھا، جو آج بھی قائم ہے۔‘‘

پروفیسر محمد وسیم علی نے کہا کہ، ’’ہمیں خوشی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ کیا، اس میں وقت ضرور لگا، مگر یہ فیصلہ بالکل درست اور قابلِ تعریف ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس فیصلے کا ہمیں مزید فائدہ ہوگا۔‘‘


پروفیسر عصمت علی خان نے اس فیصلے کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا، "عدالت کا فیصلہ انتہائی قابلِ تحسین ہے۔ اس میں جو بنیادی تنازعہ تھا، وہ یہ تھا کہ کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں اور اس پر عدالت نے اپنا فیصلہ دے دیا کہ وہ اقلیتی ادارہ ہے۔‘‘

اے ایم یو کے طلبا نے بھی اس فیصلے کو خوشی کے ساتھ سراہا۔ محمد صادق نام کے ایک طالب علم نے کہا، "ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہمیں اس سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ حکومت صرف تفرقہ انگیز سیاست کر رہی ہے، لیکن ہمیں سپریم کورٹ سے ہمیشہ مثبت نتیجے کی امید تھی۔" ایک اور طالب علم نے اس فیصلے کو دستوری حق قرار دیتے ہوئے کہا، "ہمیں اپنے حق میں فیصلہ ملنے کی توقع تھی اور اب یہ فیصلہ ہماری توقعات کے مطابق آیا ہے۔"

طلبا نے اس فیصلے کو اپنی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کے تعلیمی مستقبل کو بھی استحکام ملے گا۔ ایک طالب علم نے یہ بھی کہا، "میں جنرل کوٹے سے آیا ہوں، اور ہمیں سب کو مواقع ملتے ہیں۔"

دراصل، سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی حیثیت کے معاملے میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے 1967 کے عزیز پاشا کیس کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ اسے مسلم اقلیتی کمیونٹی نے نہیں بلکہ مرکزی حکومت نے قائم کیا تھا۔


اس نئے فیصلے کے بعد، سپریم کورٹ نے تین ججوں کی ایک نئی بنچ تشکیل دی ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ کی حیثیت ملنی چاہیے یا نہیں۔ یہ فیصلہ اے ایم یو کے لیے ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے کیونکہ اس نے مختلف مواقع پر اپنے اقلیتی کردار کا دعویٰ کیا ہے، خاص طور پر مسلم طلبا کے لیے تعلیمی فوائد کی بنیاد پر۔

یہ کیس 1967 کے عزیز پاشا کیس میں عدالت کے سابق فیصلے کے برعکس آیا ہے، جس میں عدالت نے اے ایم یو کو مسلم اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور اس کے بعد 1981 میں قانون میں تبدیلی کی گئی تھی جس سے اے ایم یو کو اقلیتی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اب اس پوزیشن پر نظرثانی کی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کو نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت ہے​۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔