میوات کو پہنایا گیا پسماندگی کا تمغہ
نیتی کمیشن نے جن 115 امکانات والے اضلاع کی شناخت کی ہے اور ان میں سے 101 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر درجہ بندی کی فہرست جاری کی گئی ہے۔
میوات: ہریانہ کے ضلع میوات (اب نوح) کو ہندوستان کا پسماندہ ترین ضلع قرار دیا گیا ہے۔ میوات کے بعد تلنگانہ کا آصفہ آباد، مدھیہ پردیش کا سنگرولی، ناگالینڈ کا کیفرے اور اتر پردیش کا شراوستی ضلع سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔
نیتی کمیشن (سابقہ پلاننگ کمیشن) نے جن 115 امکانات والے اضلاع (پسماندہ اضلاع) کی شناخت کی ہے اور ان میں سے 101 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر درجہ بندی (رینکنگ) کی فہرست جاری کی گئی ہے۔
نیتی کمیشن کے چیف ایگزیکیوٹیو آفیسر (سی ای او) امیتابھ کانت کے مطابق ہر ضلع کو 49 معیاروں جیسے ٹیکہ کاری، درمیان میں تعلیم چھوڑنا، بچوں کی شرح اموات وغیر پر نمبر دئے گئے ہیں۔ ان معیاروں پر میوات کی کارکردگی سب سے خراب گردانی گئی ہے۔
قومی راجدھانی دہلی سے محض 60 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع مسلم اکثریتی ضلع نوح یعنی کہ میوات کو پسماندہ ترین ضلع قرار دینے پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ میوات میں اس وقت یہ موضوع زیر بحث بنا ہوا ہے۔ لوگ اپنے اپنے حساب سے میوات کے پسماندہ ہونے کی وضاحت کر رہے ہیں۔
’قومی آواز‘ سے میوات کے معروف سماجی کارکن رمضان چودھری نے میوات کی پسماندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ میوات کی پسماندگی کے پیچھے کوئی ایک وجہ نہیں ہے بلکہ متعدد وجوہات ہیں اور جب تک ہر ایک وجہ پر کام نہیں ہوگا پسماندگی دور نہیں ہوگی۔
رمضان کہتے ہیں کہ میوات کے یاسین خان 1923 میں ضلع پریشد کے پرمکھ منتخب ہوئےاور ان کا خاندان لگاتار سیاست میں فعال ہے۔ 1962 سے چودھری خورشید کا خاندان سیاست میں ہے اور تیسرا خاندان رحیم خان کا بھی سیاست میں ہے ۔ لیکن ان سیاسی خاندانوں نے میوات کے لئے کچھ نہیں کیا۔‘‘
رمضان کہتے ہیں کہ ’’میوات کے سیاسی خاندانوں نے یہاں کے باشندگان کو غلام بنا کر رکھ دیا۔ یہاں روزگار نہیں ہیں۔ کسان پریشان حال ہیں۔ تعلیمی نظام درہم برہم ہے۔ ‘‘
میوات تبلیغ کے کام کے لئے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے یہاں کے لوگ دین سے بیدار بھی ہوئے۔ رمضان چودھری کہتے ہیں کہ سیاسی نمائندگان نے جو کیا سو کیا لیکن اس بدحالی میں مذہبی رہنماؤں کی بھی کچھ کوتاہیاں شامل ہیں۔ تبلیغی جماعت کا کام کرنے والے کہتے ہیں کہ دنیاوی تعلیم حاصل نہ کرو اور بس دین کی طرف توجہ دو۔ جبکہ اسلام میں کہا گیا کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔‘‘
رمضان چودھری میوات کی بدحالی کا ذمہ دار مذہب کی بنا پر کئے جانے والے تعصب کو بھی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میوات میں اجینا، حسن پور اور دیگر ہندو اکثریتی گاؤں ایسے ہیں جو ترقی یافتہ ہیں اور وہاں اسکول، کالج، سڑکیں اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ میوات کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ ‘‘
میوات سے وابستہ سینئر صحافی انل آریہ میوات کی اس بدحالی کے لئے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ میوات کے باشندگان کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میواتی جب تک بیدار نہیں ہوں گے، اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائیں گے اور مذہبی دائرے سے باہر نہیں آئیں گے تب تک ترقی نہیں ہو سکتی۔‘‘
وہ کہتے ہیں ’’میواتی کیوں نیتاگری کے چکر میں اپنا مستقبل برباد کرتے ہیں! اپنے رہنماؤں سے سوال کرنے کی ہمت کیوں نہیں کرتے! کیوں مذہب کی بنا پر بنیاد پرستی کو فروغ دیا گیا!‘‘ انل کہتے ہیں ’’میوات میں متعدد این جی او بھی کام کر رہی ہیں لیکن یہ علاقہ کی ترقی پر توجہ نہ دے کر محض اپنی جیب بھرنے میں مصروف ہیں۔ ‘‘
میوات سے وابستہ آصف خان ایڈوکیٹ مایوس ہیں اور احتجاجاً پاسماندگی کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’’میوات کی پسماندگی میں اپنے حصہ کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں۔ میں نے ووٹ ترقی کے بجائے دیگر وجوہات کی بنا پر ڈالا اور کبھی ایم پی، ایم ایل اے یہاں تک کہ گاؤں سے سرپنچ سے بھی سوال نہیں کیا۔ مبینہ سماجی اداروں کو بیلگام رکھا اور تعلیمی نظام کی طرف کبھی دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔‘‘
میوات کے ہی شوکت علی کہتے ہیں ’’میوات میں 70 سالوں سے نہروں میں پورا پانی نہیں آیا، روزگار نہیں، صنعت نہیں، اسکولوں میں ٹیچر پورے نہیں، نوکریوں میں ہمارا حصہ نہیں، سرکاری اسپتال نہیں، کسانوں کی فصلوں کا واجب دام نہیں، ہائی وے نہیں، ٹرین نہیں، کوئی بڑا کالج یا یونیورسٹی نہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں ’’میوات کے کچھ لوگ رہنما بن گئے، کچھ دہلی تک بھی پہنچے اور کچھ وہاں سے آگے بھی چلے گئے لیکن میوات ہندوستان بھر میں پسماندہ ہوگیا ۔‘‘
حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ میوات ہندوستان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ جیسے کہ تعلیم جیلدار کہتے ہیں ’’میوات کے گھر گھر میں موٹر سائکلیں ہیں، کاریں ہیں۔ تعلیمی بیداری بھی آر ہی ہے۔ شادیوں میں کافی خرچ کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے کہ میوات آگے بڑھ رہا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’میوات کو نمبر ون بنانے کے لئے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔‘‘
میوات سے وابستہ امریکہ میں مقیم حفیظ خان کہتے ہیں ’’میوات نے ہمیشہ کامیابی کے پرچم بلند کئے۔ آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ انگریزوں کی ناک میں دم کر دیا۔ یہ ضلع ہریانہ میں صنفی تناسب میں نمبر ون ہے۔ اس سب کے باوجود نیتی کمیشن کے سروے میں ہندوستان کے 101 پسماندہ اضلاع میں یہ ٹاپ پر آیاہے۔‘‘
ندیم خان ماملیکا اس خبر سے برہم ہیں وہ کہتے ہیں ’’دہلی کے نزدیک ہونے کے باوجود نوح ہندوستان میں پسماندہ ترین! دل کرتا ہے آگ لگا دوں! روح بے چین ہے۔‘‘ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں ندیم مزید کہتے ہیں ’’مجھے میوات کے سیاسی خاندانوں پر فخر ہے۔ نیتی کمیشن نے نوح کو ملک کا پسماندہ ترین ضلع قرار دے دیا۔ اب اگر کسی نے میرے خاندان سے ووٹ مانگا تو میں سوال کروں گا کہ بتا تونے میوات کے لئے کیا کیا ہے۔ ہم اس بار ووٹ کے طلب گاروں کی حالت خراب کر دیں گے۔ ‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Mar 2018, 5:43 PM