پہلا الیکشن: آزادی کے دیوانوں نے ہی نہیں، راجہ-مہاراجاؤں نے بھی لڑا تھا چناؤ

1951میں ہوئے پہلے لوک سبھا انتخابات میں نہ صرف آزادی کے دیوانوں نے حصہ لیا بلکہ راجہ مہاراجاؤں نے بھی اپنی قسمت آزمائی۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

یو این آئی

غیر ملکی غلامی سے آزادی حاصل ہونے کے بعد ہندوستان میں جمہوری نظام کے تحت 1951میں ہوئے پہلے لوک سبھا انتخابات میں نہ صرف آزادی کے دیوانوں نے حصہ لیا بلکہ راجہ مہاراجاؤں نے بھی اپنی قسمت آزمائی۔

پہلے عام انتخابات میں لوک سبھا کی 489 سیٹوں کےلئے الیکشن ہواتھا جس میں کل 53 سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں نے انتخابات میں اپنی قسمت آزمائی تھی۔ اس الیکشن میں کل 17 کروڑ 32 لاکھ 12 ہزار 343 ووٹرتھے جن میں سے 10 کروڑ 59 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ ووٹروں نے ڈھائی لاکھ پولنگ بوتھوں پر کل 1874 امیدواروں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا۔ اس الیکشن میں اوسطاً ہر سیٹ پر چار پانچ امیدوارکھڑے ہوئے تھے۔ پنجاب میں ایک سیٹ پر زیادہ سے زیادہ 14 امیدواروں نے الیکشن لڑا تھا۔


الیکشن کمیشن کے دستاویزوں کے مطابق سیاست کے اس کمبھ کے دوران 14 قومی سیاسی پارٹیوں اور 39 ریاستی سطح کی پارٹیوں نے حصہ لیاتھا جن میں کچھ پارٹیوں کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا تھا۔ قومی پارٹیوں میں کانگریس، بھارتیہ جن سنگھ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، فارورڈ بلاک (مارکسی گروپ) فارورڈ بلاک (روئی کار گروپ)، اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا، کرشی کر لوک پارٹی، کسان مزدور پرجا پارٹی، ریوولیوشنری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، اکھل بھارتیہ رام راجیہ کونسل، ریوولیوشنری سوشلسٹ پارٹی، آل انڈیا شیڈیولڈ کاسٹ فیڈریشن اور سوشلسٹ پارٹی شامل تھیں۔ روس کی سیاست سے متاثر کچھ لوگوں نے تو بول شیوک پارٹی آف انڈیا بھی تشکیل دی تھی۔

دیگر پارٹیوں میں پرجا پارٹی، پیپلس ڈیموکریٹک فرنٹ، جسٹس پارٹی، کیرالہ سوشلسٹ پارٹی، کسان مزدور منڈل، آل انڈیا پیپلس پارٹی،جھارکھنڈپارٹی، کوچن پارٹی، حیدرآباد اسٹیٹ پرجا پارٹی، گاندھی سیوک سیوا جیسی پارٹیاں شامل تھیں۔پہلے الیکشن کے دوران کچھ لوک سبھا علاقوں کے نام ایک ہی تھے لیکن ان میں صرف دو تین سیٹیں ہی تھیں۔


اس الیکشن کے لئے کانگریس نے سب سے زیادہ 479 امیدوار انتخابی میدان میں اتارے تھے۔ان میں سے 364 کی جیت ہوئی تھی جبکہ چار امیدوار اپنی ضمانت بھی نہیں بچا پائےتھے۔ کانگریس کو 44.99 فیصد ووٹ ملے تھے اور وہ اقتدار میں آئی تھی۔ اس الیکشن میں 44.87 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔ سوشلسٹ پارٹی نے 254 اور کسان مزدور پرجا پارٹی نے 145 امیدواروں کو الیکشن میں کھڑا کیا تھا۔سوشلسٹ پارٹی کے 12 اور کسان مزدور پرجا پارٹی کے نو امیدوار الیکشن جیت گئے تھے۔

سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس وقت کےبائیں بازو محاذ تحریک کی قایدت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے صرف 49 سیٹوں پر الیکشن لڑا اور وہ 16 سیٹوں سے جیت کر لوک سبھا میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بنی تھی۔ اسے 3.29 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس کے آٹھ امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ جن سنگھ نے 94 امیدواروں کو الیکشن میں کھڑا کیاتھا جن میں سے تین جیتے اور 49 کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ اس پارٹی کو تین فیصد سے کچھ زیادہ ووٹ ملے تھے۔


اس الیکشن میں کانگریس کے لیڈر جواہر لال نہرو (اترپردیش کے الہ آباد ضلع مشرق اور جونپور ضلع مغربی سیٹ) جگ جیون رام (بہار کے شاہ آباد جنوب)، وی وی گری (مدراس کے پاٹرپمٹنم)، کے کام راج نڈار (شری ولی پوتور)، وجے لکشمی پنڈت (لکھنؤ ضلع مرکز)، عبدالکلام آزاد (رام پور ضلع اور رائے بریلی ضلع مغرب) اور فیروز گاندھی (پرتاپ گڑھ ضلع مغرب اوررائے بریلی ضلع مشرق) سیٹ سے منتخب ہوئےتھے۔

جن سنگھ قائم کرنے والوں میں شامل شیاما پرساد مکھرجی کلکتہ جنوبی مشرق سیٹ سے منتخب ہوئے تھے۔انہوں نے 65 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے کانگریس کے مرگنکا موہن سور کو ہرایا تھا۔ زبردست کمیونسٹ لیڈر ہیریندر ناتھ تقریباً 72 ہزار ووٹ اور مکھرجی کو 36 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔


پہلے لوک سبھا انتخابات میں بیکانیر چرو سیٹ پر آزاد امیدوار مہاراجہ کرنی سنگھ نے کانگریس کے راجہ کشل سنگھ کو ہرایاتھا۔ مہاراجہ کرنی سنگھ کو اس زمانے میں ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے جبکہ راجہ کشل سنگھ 54 ہزار سے زیادہ ووٹ لانے میں کامیاب رہے تھے۔ اس الیکشن میں سماجوادی مفکر سچیتا کرپلانی نئی دہلی سیٹ سے کسان مزدور پرجا پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئی تھیں۔

اس الیکشن میں کل 533 لوگوں نے آزاد امیدوار کے طورپر الیکشن لڑاتھا جن میں سے 37 منتخب ہوئے تھے۔ آزاد امیدواروں نے کل ووٹنگ کے 15.90 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ وسائل کی کمی اور تشہیری سازوسامان کی کمی کی وجہ سے کچھ لوگوں نے بیل گاڑی اور بھونپو کے ذریعہ سے انتخابی تشہیر کی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا دیواروں پر لکھنے پر زیادہ زور دیتی تھی۔ راجہ مہاراجاؤں کی انتخابی تشہیر توجہ کی مرکز ہوتی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Mar 2019, 8:00 AM