مختلف ملی تنظیموں کی میٹنگ: مظاہرین پر تشدد کی مذمت، طلباء پر حملوں کی جانچ کا مطالبہ

سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں ہو رہے مظاہروں کے درمیان مختلف ملی تنظیموں کی جانب سے دہلی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ میٹنگ کی صدار جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ملک بھر میں ہو رہے مظاہروں کے درمیان مختلف ملی تنظیموں کی جانب سے دہلی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ میٹنگ کی صدار جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کی۔

جمعیۃ کی طرف سے جاری ایک پریس بیان میں کہا گیا کہ شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور این پی آر کو نافذ کرنے کے اعلان کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا اور اس احتجاج کو کچلنے کے لئے جس طرح جگہ جگہ طاقت کا استعمال کیا گیا یہاں تک کے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء کو بھی نہیں بخشا گیا اس کے خلاف پورے ملک میں غم وغصہ کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے اور ان حملوں کے خلاف لوگ کھل کر سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں جسے روکنے کے لئے پہلے ہی کی طرح طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے اور اس سے ملک کے حالات انتہائی تشویشناک ہو چکے ہیں۔

پریس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر میں مولانا سید ارشدمدنی کی صدارت میں پہلی بار ملک کی تمام نمائندہ ملی تنظیموں کی ایک اہم میٹنگ میں منعقد ہوئی، جس میں جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، ملی کونسل، مسلم مجلس مشاورت کے ذمہ داران کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اورمتعدد اہم اور مقتدرشخصیات نے ملک کی مختلف ریاستوں سے شرکت کی۔


اس میٹنگ میں شہریت ترمیمی قانون 2020 این آرسی اور این پی آرکے مختلف پہلوں اور اس کے خلاف ملک گیر سطح پر چلنے والی تحریک کا تفصیلی جائزہ لے کر درج ذیل قراردادیں منظورکی گئیں:

شہریت ترمیمی قانون، این پی آر اور این آرسی

دینی وملی تنظیموں کا یہ اجتماع شہریت ترمیمی قانون 2020، این پی آر اور این آر سی کے قوانین کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون نہ صرف ملک کی تکثیری حیثیت کے خلاف ہے بلکہ دستورہند سے بھی متصادم ہے۔ یہ قانون مذہب کی بنیادپر انسانوں کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے اور دستور کی بنیادی حقوق کی دفعات 14،15 اور 21 سے براہ راست متصادم ہے۔ نیز دستورکے ابتدائیہ (ُپریمبل) کے بھی خلاف ہے۔

اسی طرح ملی تنظیموں کا احساس ہے کہ این آرسی کے ذریعہ آسام میں افرا تفری پیدا ہوئی ہے اور شہریوں کو محض اس بنیاد پر کے ان کی دستاویزات میں املے کی غلطیاں تھیں این آرسی سے خارج کردیا گیا۔ ملی تنظیموں کا احساس ہے کہ اب جو این پی آر لایا گیا ہے وہ دراصل این آرسی کی ہی ابتدائی شکل ہے، نیز اس میں 2010 کے این پی آرسے زیادہ چیزوں کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

اجلاس کا مطالبہ ہے کہ سی اے اے سے مذہبی تفریق کو ختم کیا جائے، اسی طرح این پی آرکو یا تو واپس لیا جائے یا اس کی اضافی شقوں کو ختم کیا جائے۔ ملی تنظیموں کا یہ بھی احساس ہے کہ سی اے اے کا یہ قانون پڑوسی ملک بالخصوص بنگلہ دیش سے ہمارے دوستانہ تعلقات کو بھی متاثرکرے گا۔ ملک کے جامعات پر حملے۔


یہ اجلاس جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دیگر طلباء ونوجوانوں کے ذریعہ ان قوانین کے خلاف چلائی جارہی تحریکوں کی بھرپور حمایت اور حوصلہ افزائی کرتاہے اور پولس کے ذریعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جواہر لال نہرویونیورسٹی اور حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی وغیرہ کے طلباء پر حملوں کی پرزورمذمت کرتا ہے۔

ماسک بردار ناپسندیدہ عناصر کے ذریعہ ملک کی معروف اورمقبول عام یونیورسٹی جے این یو کے طلباء پر حملہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پولس اور یونیورسٹی کی سیکورٹی فورس اس حملہ کے وقت نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ حملہ آوروں کی پشت پناہی کرتی دکھائی دی۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ یونیورسٹی کیمپس پر ان حملوں کی جوڈیشل جانچ کرائی جائے اور جو پولس افسران اس میں ملوث پائے جائیں ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔

بی جے پی اقتداروالی ریاستوں میں مظاہرین پر حملے

ملی تنظیموں کا یہ اجلاس بی جے پی اقتداروالی ریاستوں میں پرامن مظاہرین پر پولس کے حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتاہے، جس کے نتیجہ میں آسام اور یوپی سے لیکر کرناٹک تک تیس سے زیادہ افراد پولس کی گولیوں سے شہید اور بڑی تعدادمیں لوگ زخمی ہوئے اور سیکڑوں کی تعدادمیں مظاہرین کو گرفتارکرکے ان پر مقدمات قائم کردیئے گئے۔ افسوسناک پہلویہ ہے کہ بغیر کسی تحقیق اور عدالتی کارروائی کے مسلمانوں کی دوکانوں کو ضبط کرکے ان سے سرکاری املاک کے نقصان کی تلافی کی بات کی جارہی ہے، یہ اجلاس ان قدامات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتاہے اور مطالبہ کرتاہے کہ پولس کے ذریعہ تشددکے ان واقعات کی جوڈیشل جانچ کرائی جائے اور جوافسران اس میں ملوث پائے جائیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے، یہ اجلاس ان ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتاہے کہ مہلوکین اور زخمیوں کو بھرپورمعاوضہ دیا جائے۔


اجلاس میں درج ذیل شخصیات نے شرکت کیں۔ مولانا سیدارشدمدنی ، مولانامحمد ولی رحمانی ، مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی ، سید سعادت اللہ حسینی ، مولانا عبداللہ مغیثی، مولانا عبدالخالق مدراسی ، مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی، ڈاکٹرمحمد منظورعالم، پروفیسر اخترالواسع ، ڈاکٹرسید قاسم رسول الیاس، نوید حامد ، مولانا شبیرندوی، ملک معتصم خاں، مولاناعبدالعلیم فاروقی ، مولانا اسجد مدنی ، مولانا اشہد رشیدی، مولانا مسلم قاسمی، مفتی اشفاق احمد، مولانا حلیم اللہ قاسمی ، مولانا قاری شمس الدین ، مولانا محمد خالدقاسمی ، مولانا محمد ہارون، مفتی عبدالرازق اورپروفیسر احتشام الحق۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔