بولیاں لگا کر ٹکٹ دینے والی پارٹی اپنے ووٹ بینک سے خود محروم رہ گئی، مسلمانوں پر الزام
انتخاب در انتخاب بی ایس پی کا ووٹ بینک کھسکتا چلا گیا، سال 2017 کے مقابلے ان انتخابات میں پارٹی کو 10 فیصد کم ووٹ ملے جب کہ 2017 میں پارٹی کو 22 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔
اتر پردیش میں اس مرتبہ بی جے پی کے فاتح اراکین اسمبلی سے زیادہ بہوجن سماج پارٹی کے اس رکن اسمبلی کا تذکرہ رہا جس نے جیت حاصل کر پارٹی کی ناک بچائی۔ اس بار بی ایس پی کے معاملے میں سیاسی پنڈتوں کا اندازہ تھا کہ یہ کم از کم سیٹیں بھی حاصل کرے گی تو یہ نمبر 20 سے 40 کے درمیان ہوگا۔ لیکن پارٹی کو ایسی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی امید کسی کو بھی نہیں تھی۔ پارٹی سپریمو مایاوتی اس کا ذمہ دار مسلمانوں کو بتا رہی ہیں۔ وہ یہ بھی بول رہی ہیں کہ مسلمانوں نے اس انتخاب میں ووٹ دینے میں غلطی کی۔
بہوجن سماج پارٹی کے حصے میں صرف ایک سیٹ بلیا ضلع کی رَسڑا اسمبلی آئی، جہاں سے دو بار کے رکن اسمبلی رہے اوما شنکر سنگھ جیتے ہیں۔ انتخاب در انتخاب بی ایس پی کا ووٹ بینک کھسکتا چلا گیا۔ سال 2017 کے مقابلے ان انتخابات میں پارٹی کو 10 فیصد کم ووٹ ملے، جب کہ 2017 میں پارٹی کو 22 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ مسلمانوں کے سر شکست کا ٹھیکرا پھوڑنے والی مایاوتی کے انتخاب لڑنے کی سنجیدگی اس بات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ وہ انتخاب سے محض 8 دن پہلے انتخابی ریلی کے لیے گھر سے نکلیں۔ صرف سال 1993 سے لے کر سال 2007 میں ہی پارٹی نے ووٹ لینے میں سبقت حاصل کی۔ اس کے بعد لگاتار پارٹی کا ووٹ بینک کھسکتا چلا گیا۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ بہن جی نے اپنے فائدے کے لیے پورے دلت طبقہ کے وقار کو آر ایس ایس کی چوکھٹ پر نیلام کر دیا۔
منوادی نظریہ کے نام نہاد دشمن بحث کا موضوع مسلمان کو ہی کیوں بنا رہے ہیں؟ باقی ذاتوں اور مذاہب کے لوگوں کی آخر انھیں فکر کیوں نہیں ہے؟ دیکھا جائے تو مایاوتی الیکشن بھر تو برہمن ووٹ جمع کر رہی تھیں، اب ان کو لے کر شکایت کیوں نہیں ہے؟ مایاوتی کا یہ رونا دھونا نہ انتخابی تجزیہ ہے، نہ کوئی درد، نہ شکایت ہے، بلکہ یہ دلتوں کے دل میں آر ایس ایس کے ذریعہ بوئی گئی مسلم مخالف ذہنیت کو مایاوتی جی سے ویلیڈیٹ کروانے کی سیاست ہے۔ یعنی کہ دلت طبقہ کے دل میں مسلمانوں کے لیے تلخی پیدا کرنا۔ بہن جی آر ایس ایس کے کمیونل ایجنڈے کو تو باریکی سے چلا ہی رہی ہیں، ساتھ ہی وہ ایس سی اور او بی سی کے درمیان بھی نفرت کا کنواں کھودنے میں لگی ہیں تاکہ دلت سیاست کے نظریاتی ابھار سے برہمن وادی بالادستی اور آرڈر کو جو خطرہ پیدا ہوا تھا وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔ ہمیں ان کی اس سازش کو سمجھنے اور بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی نے حال ہی میں ایک اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ مایاوتی جب 2007 میں انتخاب جیتی تھیں اس وقت 85 فیصد جاٹو، 71 فیصد والمیکی اور 57 فیصد پاسی ذات کے لوگوں نے بی ایس پی کو ووٹ دیا تھا۔ 2012 میں جاٹو 62 فیصد، پاسی 51 فیصد ساتھ رہے لیکن والمیکی ذات کی طرف سے 42 فیصد ووٹ ہی ملے۔ یہ پہلی بار تھا جب مایاوتی کا بنیادی ووٹر ان سے دور بھاگ رہا تھا۔ یعنی کی بہن جی کا حقیقی ووٹر ہی ان سے چھٹک گیا۔ حالانکہ میں نجی طور پر اس مطالعہ سے متفق نہیں ہوں۔ میں نے جو پوری ریاست میں زمینی سطح پر دیکھا ہے، جاٹو جنھیں شمال مشرقی ریاست میں ہریجن یا چمار ذات کے نام سے جانا جاتا ہے، کو چھوڑ کر پاسی، کھٹیک اور دوسری ایس سی ذاتوں کی حمایت بہوجن سماج پارٹی کو وسیع طور پر کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس بار وہ کور (بنیادی) ووٹر بھی بہن جی کے ساتھ کھڑا نہیں رہا۔
اپنے نظریات، اپنی پارٹی، اپنے ووٹ بینک کی قربانی دے کر وہ ہاتھی سے اتر کر کمل کھلانے لگیں۔ مایاوتی سے مسلمان نہیں چھٹکے، بلکہ وہ خود اپنے ہی ووٹ بینک سے چھٹک گئی ہیں۔ ملاقات سے لے کر ٹکٹ اور ریلیوں تک کی بولی لگانے والی بہن جی پوری دلت سیاسی نظریہ کو آخر کار حاشیے پر پہنچانے میں کامیاب رہیں۔
پیدل اور سائیکل سے پنجاب سے لے کر اتر پردیش تک پارٹی نظریات کو مضبوطی دینے والے کانشی رام کی رکھی گئی بنیاد میں بہن جی نے دیمک لگا دیا اور قصوروار مسلمانوں کو ٹھہرا رہی ہیں۔ مسلمان یہ جانتے ہیں کہ انھیں ووٹ کہاں دینا ہے اور کیوں دینا ہے۔ مایاوتی کے کہنے کے معنوں پر جائیں تو مسلمانوں نے ہی ان کی پارٹی کو فتحیاب کرانے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے۔ جب کہ اتر پردیش سمیت ملک بھر میں موب لنچنگ، سی اے اے، این آر سی، ٹارگیٹ انکاؤنٹر، حجاب اور گوشت کے کاروبار پر پڑے منفی اثرات، مسجدوں میں لگے اسپیکروں کے تنازعہ، لو جہاد جیسے ایشوز پر بہن جی خاموش رہیں۔ ان ایشوز پر ان کا ہاتھی پالتھی مارے بیٹھا رہا۔ اپنی جیت کے لیے صرف مسلم ووٹ بینک پر نگاہ رکھنے والے فرقہ پرست سیاست کا بیج بو رہے ہیں۔ پولرائزیشن کو مضبوط کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسے ووٹ دیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بہن جی کے اپنے اصل ووٹ چھٹک گئے، ووٹروں کو پہچانیں اور ان کا ووٹر اپنی پارٹی کو پہچانے۔ وہ ملک کا بڑا خطرہ مہنگائی، بے روزگاری، خستہ حال صحت خدمات، غریبی کو مانے نہ کہ مسلمان کو۔ مسلمانوں پر بحران کے وقت میں آپ ان کے ساتھ نہیں تھے تو پھر ہارنے کے بعد ٹھیکرا مسلمانوں کے سر کیسے؟ کہیں نہ کہیں یہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ واریت کے جذبہ کا اظہار بھی ہے۔ جسے اب مسلمان ٹھیک سے پہچان چکے ہیں۔ ایک بار انھوں نے بیان بھی دیا تھا کہ مسلمان کٹر ہوتے ہیں۔ تو مسلمانوں سے ووٹ کی امید کیوں؟
(نوجیون انڈیا ڈاٹ کام کے لئے تحریر کردہ ڈاکٹر علیم اللہ خان کے ہندی مضمون کا اردو ترجمہ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔