اب مولانا سلمان نے خود کو بابری مسجد ایشو سے الگ کیا

مولانا ارشد مدنی اور مولانا رابع حسنی ندوی کو جب میں پریشان دیکھتا ہوں افسوس ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ پریشانی سے نکلیں اس لیے اب صرف عدالت کے فیصلے کا ہی انتظار ہے: مولانا سلمان ندوی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

بابری مسجد اور رام مندر ایشو کا حل نکالنے کے لیے عدالت کے باہر مصالحتی فارمولے کی بات کرنے والے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ سے علیحدہ راہ اختیار کرنے کے بعد چہار جانب سے تنقید کا سامنا کر رہے مولانا سلمان ندوی نے اس پورے معاملے سے خود کو الگ کرنے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے اپنے رخ میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا ”میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کی اکثریت اور ہندوﺅں کی اکثریت ٹینشن میں ہے اور کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کوئی فریق مصالحت کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے بابری مسجد اور رام مندر کا ایشو ہم لوگ اپنے ایجنڈے سے خارج کرتے ہیں۔“ انھوں نے حضرت مولانا ارشد مدنی اور حضرت مولانا رابع حسنی ندوی کو اپنا بزرگ قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ”ان سے ہمارے گہرے تعلقات ہیں اور جب میں ان کو پریشان دیکھ رہا ہوں تو میں چاہتا ہوں کہ وہ اس پریشانی سے نکلیں۔ اس لیے میں انھیں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اب عدالت کے فیصلے کا ہی انتظار ہوگا اور باہر سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ ویسے بھی جب فریق ہی متفق نہیں ہوں گے تو فیصلہ کیا ہوگا۔“

مولانا سلمان ندوی نے اپنا یہ بیان ایک ویڈیو کے ذریعہ جاری کیا ہے جو انھوں نے فیس بک پر ڈالا ہے۔ انھوں نے اس ویڈیو میں تمام مسلمانوں اور ہندوﺅں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”بابری مسجد اور رام مندر کا ایشو جو اس وقت زیر بحث ہے اور 25 سال سے جس کا حل نہیں نکل سکا ہے، اس کا حل ہم مصالحتی فارمولے کو سامنے رکھ کر نکالنا چاہتے تھے تاکہ کوئی سمجھوتہ اختیار کیا جائے۔“ انھوں نے مزید کہا کہ ”اس وقت ملک میں فرقہ واریت کا جو بھوت ہے اور جنگل کا جو قانون ہے اس کا علاج صرف اس طرح ممکن ہے کہ سچ سامنے لایا جائے، لوگوں کو انسانیت کے پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور مختلف مذاہب و برادری کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوں۔ اس مقصد کی خاطر 8-9 مہینے پہلے میں نے ایک مصالحتی فارمولہ جاری کیا تھا۔ پھر جب یہ معلوم ہوا کہ ایک ہندو سنت مہنت شری شری روی شنکر صاحب اس سلسلے میں ملاقاتیں کر رہے ہیں تو میں نے بھی ان سے ملاقاتیں کیں۔“

مولانا ندوی نے بابری مسجد اور رام مندر معاملے میں اب کسی مصالحتی فارمولے کی بات نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”بابری مسجد اور رام مندر ایشو ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ شہید کیے جا چکے ہیں اور اس کے پیچھے بہت ظلم ہے۔ ایسے سلگتے ہوئے مسائل کو آپس میں مل بیٹھ کر حل کر لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ کسی سمجھوتے اور بات چیت کے لیے تیار نہیں ہے اور اس میں کئی مسلم تنظیمیں، ادارے اور معروف شخصیتیں بھی شامل ہیں۔ وہ اس ایشو کو مذہب کا ایک ایسا مسئلہ سمجھتے ہیں جس میں غور و فکر کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح ہندوﺅں میں کچھ سخت مزاج کی تنظیمیں ہیں جو کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں مصالحتی فارمولے کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔“ انھوں نے مزید کہا کہ ”ایسی فضا میں جب کہ لوگ بہت زیادہ سلگ رہے ہیں اور کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں جو نادانی اور بے وقوفی کا ثبوت دیتے ہوئے ادھر ادھر کی فضول باتیں کر رہے ہیں، الزامات لگا رہے ہیں ، جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم لوگ تو امن کے لیے اور اچھی فضا قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن اگر اس کی وجہ سے لوگ ٹینشن میں آ رہے ہیں، گالی گلوج کر رہے ہیں، بیمار پڑ رہے ہیں تو ہمیں ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں چاہیے۔“

اس ویڈیو میں مولانا سلمان ندوی نے بابری مسجد اور رام مندر ایشو کو اپنے ایجنڈے سے باہر ضرور قرار دیا لیکن ساتھ ہی ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے فلاح انسانی بورڈ کے قیام سے متعلق باتیں بھی کہیں۔ انھوں نے کہا کہ ”ہماری شری شری روی شنکر سے اور دیگر مذاہب کے کچھ لوگوں سے فلاح انسانی بورڈ کے سلسلے میں بات ہوئی ہے۔ یہ ایک بین المذاہب بورڈ ہے اور اس کا نہ پرسنل لاءبورڈ سے لینا دینا اور نہ ہی کسی دیگر تنظیم سے۔“ انھوں نے اس بورڈ کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے وہئے کہا کہ ”اس ملک میں 1947 سے کوئی ایسی تنظیم نہیں بنائی جا سکی جس میں سبھی مذاہب کے لوگ سر جوڑ کر بیٹھ سکیں اور جتنے بھی چھوٹے بڑے، سیاست یا ملت سے متعلق مسائل ہوں ان سب پر آپس میں غور ہو سکے۔ بھائی چارے کے ماحول کو قائم رکھنے کے لیے امن کی فضا قائم رکھنے کے لیے یہ جو جدوجہد ہے یہ جاری رکھی جائے گی، اسی لیے یہ بورڈ بنایا جا رہا ہے۔“

اس کے ساتھ ہی مولانا سلمان ندوی نے پرسنل لاءبورڈ کی صفوں میں تطہیر کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ”میں ذمہ داران سے کہنا چاہوں گا کہ آپ نے جن لوگوں سے رابطہ بنا رکھا ہے وہ نہ تو مسلمانوں میں مقبول ہیں اور نہ ہی ہندوﺅں میں۔ اگر آپ تطہیر کے لیے تیار ہیں تو آپ اویسی، کمال فاروقی، قاسم رسول الیاس اور یوسف مچھالہ جیسے لوگوں کو باہر کیجیے ورنہ آپ ان کے سیاسی ایجنڈے میں شامل سمجھے جائیں گے۔“ اویسی کے بارے میں مولانا ندوی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ”ان کو مسلمان اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ بہار، یو پی اور کرناٹک کے عوام انھیں ووٹ کاٹنے والے لیڈر کی شکل میں پہچانتے ہیں۔“

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Mar 2018, 1:48 PM