’مولانا آزاد کے افکار اور دانشورانہ ورثے سے نئی نسل کو واقف کرانا ضروری‘

پروفیسر رضوان قیصر نے کہا ’’مولانا آزاد تقسیم ملک کے مخالف، ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی اور ذہنی ترقی کے خواہاں تھے اور مسلمانوں کو خود اعتمادی سے بھر دینا چاہتے تھے‘‘

تصویر پریس ریلیز
تصویر پریس ریلیز
user

یو این آئی

حیدرآباد: آن لائن ادبی فورم ’بازگشت‘ کی جانب سے مولانا ابو الکلام آزاد کے مجموعہ مکاتیب ’غبار خاطر‘ سے منتخب خط کی پیش کش اور ان کی قومی و ملّی خدمات سے متعلق گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام میں بہ حیثیت مہمانِ خصوصی پروفیسر رضوان قیصر ممتاز مورخ اور استاد شعبہ تاریخ و ثقافت، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے کہا ”مولانا آزادکے افکار اور دانشوارانہ ورثے سے نئی نسل کو واقف کرانے اور ان کے تعلیمی فلسفے کو زندگی میں اتارنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک سچے محب وطن، مخلص قوم پرست،عظیم دانشور، زبردست عالم، نڈر صحافی، ایماندار رہنما، بہترین انشا پردازاور اصول پرست انسان تھے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ وہ تقسیم ملک کے مخالف، ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی اور ذہنی ترقی کے خواہاں تھے۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو اقلیت اور اکثریت کی سوچ سے آزاد کرکے ان کے دل و دماغ کو خود اعتمادی سے بھر دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے آزادی کے بعد بطور وزیر تعلیم ملک کی تعلیمی ترقی کے لیے جو منصوبہ سازی کی اور جس طرح مختلف نوعیت کے ادارے قائم کیے وہ ان کی دوراندیشی کی دلیل ہے۔ آئی آئی ٹی کھڑگ پور، یو جی سی، ساہتیہ اکادمی، للت کلا اکادمی، سنگیت ناٹک اکادمی، انڈین کونسل فار کلچرل رلیشنزکے علاوہ ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا قیام ان کا شاندار کارنامہ ہے۔


انہوں نے رانچی میں نظر بندی کے زمانے میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا جس کے نصاب میں ریاضی، سائنس اور دیگر علوم کو شامل کیا تھا۔ آج کے پروگرام میں مولانا جو خط پیش کیا گیا اس میں خود سوانحی عنصر ملتا ہے اور بیوی کی وفات کا شدید کرب اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے مولانا کی اصول پسندی اور ضبط و استقلال کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بیوی کی شدید علالت کے باوجود انھوں نے انگریزوں سے رہائی کی درخواست نہیں کی۔

ممتاز افسانہ نگار اور بازگشت آن لائن ادبی فورم کے سرپرست پروفیسر بیگ احساس نے صدارتی تقریر میں کہا کہ مولانا آزاد ایک نابغہئ روزگار تھے۔ ’غبار خاطر‘ کے خطوط اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو میں اعلیٰ و ارفع مقام کے حامل ہیں۔ان میں انشائیے کا رنگ غالب ہے۔ مولانا نے بیشتر خطوط میں حزم و احتیاط سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے ان میں بے تکلفی اور بیساختگی کے عناصر کم ہیں لیکن زلیخا بیگم کی وفات پر لکھے گئے اس خط میں مکتوب نگاری کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔اس میں مولانا آزادکی شخصیت جھلکتی ہے۔ مولانا اپنی تکالیف کا اظہار کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ہماری نئی نسل کو یہ جاننا چاہیے کہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کے لیے کتنی قربانیاں دی ہیں۔آج ملک میں جو حالات ہیں ان کے پیش نظر مسلمانوں کو ایک نئی حکمت عملی بنانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔


ممتازقلم کار اورصحافی جناب انعام الرحمٰن غیورنے نہایت دلکش انداز اور لب و لہجے میں ”غبارِ خاطر“سے وہ خط پیش کیا جو مولانا آزاد نے اپنی اہلیہ زلیخا بیگم کی وفات کے بعد لکھا تھا۔ انھوں نے آواز کے زیروبم سے سماں باندھ دیا۔ڈاکٹر احمد خاں،ڈاکٹرصابر علی سیوانی، ڈاکٹر عمیر منظر اور جناب نیاز احمد نے گفتگو میں حصہ لیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔