’’مولانا آزاد آفاقی فکر کے حامل انسانیت نواز رہنما تھے‘‘
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یوم قومی تعلیم پر آن لائن یادگاری خطبہ کا اہتمام کیا گیا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے اس تقریب کی صدارت کی۔
حیدرآباد: مولانا ابوالکلام آزاد آفاقی فکر کے حامل ایک ایسے رہنما ہیں جو ہندوستان کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، انہیں صرف سیاست کے میدان تک محدود رکھنا نا مناسب ہے۔ مولانا آزاد کی تصویر پر تاریخ کی گرد ضرور نظر آتی ہے لیکن ہندوستان کے باضمیر تعلیم یافتہ طبقہ اس گرد کو ضرور صاف کرے گا۔ مولانا آزاد کی تحریر و فکر مقامی زبانوں تلگو یا مراٹھی میں نظر نہیں آتی۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر عبدالحمید خان، ڈائرکٹرو سابق صدر شعبہ انگریزی، بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد نے آج ”عصر حاضر میں مولانا ابوالکلام آزاد کی معنویت“ کے زیر عنوان پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔
یہ بھی پڑھیں : یوم تعلیم : مولانا ابو الکلام آزاد اور قومی یکجہتی
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یوم قومی تعلیم پر آن لائن یادگاری خطبہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔ پروفیسر ٹی وی کٹی منی، وائس چانسلرڈ، سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی، وزیانگرم، آندھرا پردیش مہمان خصوصی تھے۔
پروفیسر حمید خان نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلامی اور حب الوطنی کے نظریات میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ ان کی سوچ ہندوستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ پوری انسانیت کے لیے تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ سواراج کا نہ ملنا ہندوستان کا نقصان ہوسکتا ہے لیکن ہندو-مسلم اتحاد کا کھودینا ساری انسانیت کا نقصان ہے۔ مولانا صرف ملک ہی نہیں بلکہ انسانی سوچ، فکر اور روح کی آزادی کے لیے کوشاں رہے۔ مولانا آزاد کثیر الجہات اور کثیر الابعاد شخصیت، بے مثال صحافی، ماہر لسانیات، ماہر ادبیات، سماجی مصلح، مدبر اور سیاستداں تھے۔ ان کے قائم کردہ ادارے جیسے یو جی سی، اکیڈمیاں، آئی آئی ٹیز وغیرہ ان کی دور اندیشی کا بین ثبوت ہیں۔ ان کے افکار کی بلندی کا حال یہ تھا کہ گاندھی جی بھی بعض دفعہ مولانا کی بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کیا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے کئی مرتبہ انہیں صرف مسلمانوں کا لیڈر قرار دیا گیا۔ مولانا نے کہا تھا کہ اگر کوئی مسلم حکومت بھی ہو اور اس میں جمہور کی رائے کو نظر انداز کر تے ہوئے ظلم و استبداد کا بازار گرم ہو تو وہ اس کی بھی مخالفت کریں گے۔ مولانا کی سوچ آج بھی ہمیں انقلابی شاعری میں نظر آتی ہے۔
مہمانِ خصوصی پروفیسر ٹی وی کٹی منی، وائس چانسلرڈ، سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی، وزیانگرم، آندھرا پردیش نے کہا کہ مولانا آزاد ایک عظیم انسان تھے۔ انہوں نے زبان، سائنس اور کلچر کے لیے جدوجہد کی۔ انہوں نے اہم ترین ادارے یو جی سی، ساہتیہ اکیڈیمی قائم کیے۔ وہ ٹیکنالوجی پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ انہوں نے تعلیم میں ہر ڈسپلن کو فروغ دیا۔ وہ ایک بہت بڑے سماجی سائنسداں اور جہد کار تھے۔ انہوں نے ہر کسی کی تعلیم پر توجہ دی جس میں دلتوں کی تعلیم، تعلیم ترک کرنے والوں کی تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارتی خطاب میں کہا کہ مولانا مختلف الجہات شخصیت رہے۔ ان کے خیالات و افکار کی معنویت کل بھی اہمیت کی حامل تھی آج بھی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مولانا کے مشن کو آگے بڑھائیں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں مولانا ابوالکلام آزاد کے افکار کو شامل کیا گیا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ مولانا آزاد کے افکار پر مبنی اس پالیسی کو لے کر آگے بڑھیں اور ملک کی ترقی میں اپنا تعاون دیں۔ مولانا نے کہا تھا کہ غیر مسلم حضرات کے لیے تحریک آزادی میں حصہ لینا حب الوطنی کا تقاضہ ہوسکتا ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ دینی فریضہ بھی ہے۔ کیونکہ اسلام میں آزادی کی اپنی اہمیت ہے۔
قولِ فیصل کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر رحمت اللہ نے کہا کہ یہ جرات اور حق بیانی کی مثال ہے جو مولانا نے جج کے سامنے پیش کی تھی۔ مولانا مفکر تعلیم تھے۔ انہوں نے روایتی تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود روایتی تعلیم کا ایک بہترین نظام قائم کیا۔ نئی پالیسی میں ٹیکنالوجی کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔ مولانا نے ملک کی آزادی کے بعد ابتدائی دور میں ہی آئی آئی ٹیز کو قائم کرتے ہوئے اس کا آغاز کردیا تھا۔ انہوں نے یونیورسٹی اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں انجام دیں تاکہ ہماری یونیورسٹی اور ہمارا ملک ترقی کی راہوں پر گامزن رہے۔
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج مہمانوں کا استقبال کیا اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوم آزاد کا انعقاد محض ایک رسم نہیں بلکہ مولانا ابوالکلام کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوﺅں سے نئی نسل کو واقف کروانے کی کوشش ہے۔ پنڈت نہرو، سروجنی نائیڈو جیسے قائدین نے مولانا آزاد کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی لوگوں کو تلقین کی۔ ڈاکٹر ثمینہ کوثر تابش، اسسٹنٹ پروفیسر عربی نے کارروائی چلائی۔ ڈاکٹر احمد خان، ڈپٹی ڈائرکٹر، مرکز برائے مطالعاتِ اردو ثقافت نے شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر عبدالعلیم، اسسٹنٹ پروفیسر، نظامت فاصلاتی تعلیم کی قرات کلام پاک وترجمہ سے جلسہ کا آغاز ہوا۔ جناب رضوان احمد کی قیادت میں میڈیا سنٹر نے یونیورسٹی کے یو ٹیوب چینل پر پروگرام کا لائیو ٹیلی کاسٹ کیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔