ممتاز عالم دین، مفکر ومصنف مولانا عتیق الرحمان سنبھلی کا دہلی میں انتقال
مولانا آزادی کے بعد ہندوستان کے اہم اصحاب قلم میں شمار ہوتے تھے اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ان کی تحریریں رہنما سمجھی جاتی تھیں۔
مشہور عالم دین اور اسلامی اسکالر مولانا منظور نعمانی کے بڑے صاحبزادے مولانا عتیق الرحمان سنبھلی کا کل دہلی میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر 96 برس تھی۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ان کی تدفین اور نماز جنازہ آج سنبھل میں بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔
خاندانی ذرائع نے بتایا کہ مولانا مرحوم کوکوئی خاص بیماری نہیں تھی لیکن وہ عمرکے تقاضاکے مطابق عارضے سے متاثر تھے۔ مولانا ایک ممتاز علمی شخصیت اور کئی اہم اور فکر انگیز کتابوں کے مصنف تھے۔ جن میں ۶ جلدوں میں محفل قرآن نام سے ایک شاہ کار تفسیر اور واقعہء کربلا اور اس کا پس منظر مشہور ہیں۔ وہ حضرت مولانا منظور نعمانیؒ کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ مولانا کی تعلیم دار العلوم دیوبند میں ہوئی جہاں انہوں نے شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ سے استفادہ کیا۔ مولانا اسعد مدنی، اور مولانا محمد سالم قاسمی ان کے ہم درس تھےاور 1974 میں رسمی فراغت کے بعد ان کے رسالہ الفرقان کے لمبی مدت تک ایڈیٹر رہے۔
سن ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی حفیظ نعمانی کے ساتھ ہفت روزہ ندائے ملت نکالا۔ جس کے سرپرست مولانا علی میاں اور مولانا نعمانیؒ ہوا کرتے تھے۔ اسی دور میں مسلم مجلس مشاورت کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔ ان کے مضامین اپنے عہد میں نہایت فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔وہ آزادی کے بعد ہندوستان کے اہم اصحاب قلم میں شمار ہوتے تھے اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ان کی تحریریں رہنما سمجھی جاتی تھیں۔
مولانا اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر1976عیسوی میں برطانیہ منتقل ہوگئے۔ جہاں ان کی علمی خدمات اور مسلمانوں کے مسائل میں متحرک کردار کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا اپنے خلوص وسادہ معیار زندگی اور شرافت ووضع داری میں پچھلے زمانوں کی یادگار معلوم ہوتے تھے۔ علالت اور کبر سنی کے عوارض کی وجہ سے وہ کئی سال سے دہلی اپنے صاحب زادے مولانا عبید الرحمان سنبھلی کے ساتھ مقیم تھے۔ آج قبل عشاء مولائے حقیقی سے جاملے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔