آسام شہریت: سماعت کیلئے یکم نومبر کا پورا دن مختص، ارشد مدنی کا اظہار اطمینان
عدالت عظمی نے کہا، یکم نومبر کو ان 5 دستاویزات پر بحث ہوگی جنہیں آبجکشن اور کلیم کے عمل سے نکالنے کا مطالبہ ہوا ہے، آسام سے وابستہ تمام معاملوں پر بحث کے لئے یکم نومبر کا پورا دن مختص کیا گیا ہے۔
نئی دہلی: آسام شہریت کے معاملوں میں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس ایف آر نریمن کی دورکنی بینچ میں سماعت کا آغاز ہوا تو جمعیۃ علماء ہند اور آمسو (آل انڈیا آسام اسٹوڈنتس یونین) کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، سلمان خورشید، اندراجے سنگھ اور وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی پیروی کے لئے پیش ہوئے۔
کارروائی کے آغاز پر اسٹیٹ کوآرڈینیٹر پرتیک ہزیلا نے کورٹ کے سامنے دورپورٹیں پیش کیں۔ ایک رپورٹ کانفیڈینشل تھی جبکہ دوسری رپورٹ میں اسٹیٹ کوآرڈینیٹر پرتیک ہزیلا نے اپنا موقف پیش کیا۔ پرتیک نے کہا کہ پانچ دستاویزات کو اب آبجکشن اور کلیم کے عمل سے نکال دیا گیا ہے۔
جن دستاویزات کو عمل سے باہر کیا گیا ہے وہ این آرسی کا 1951 اقتباس، 1971 سے پہلے کی الیکٹرورل رول کی تصدیق شدہ کاپی، 1971 سے پہلے ریاست کے باہر کے کسی رجسٹرڈ اتھارٹی سے جاری کیا گیا شہریت کا سرٹیفیکٹ، 1971 سے پہلے کا ری فیوجی رجسٹریشن سرٹیفیکٹ اور 1971 سے پہلے جاری کیا گیا راشن کارڈ ہیں۔
انہوں کے آبجکشن اورکلیم کے موجودہ عمل میں پانچوں دستاویزات کا استعمال نہیں کئے جانے کے مطالبہ پر کورٹ نے حکم سنایا کہ اسٹیٹ کوآرڈینٹر نے ان پانچ دستاویزات سے متعلق جو رپورٹ پیش کی ہے یہ رپورٹ تمام فریقین کومہیا کرائی جائے اور تمام فریقین کو اس پر 30 اکتوبر تک جواب داخل کرنے کا حکم بھی دیا۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ یکم نومبر کو ان پانچ دستاویزات کے ساتھ ساتھ آسام کے دوسرے تمام معاملوں پر پورے دن بحث ہوگی۔ ساتھ ہی کورٹ نے یہ حکم جاری کیا کہ اسٹیٹ کوآڈینٹر ان پانچ دستاویزات سے متعلق پاور پوائنٹ پریزنٹیشن سینٹرل گورنمٹ، آسام سرکار کے افسران، سسالیسٹر جنرل آف انڈیا اور تمام فریقین کے نمائندے کہ طورپر جمعیۃ علماء ہند کے وکیل کپل سبل کے سامنے 26 اکتوبرکو پیش کریں تاکہ اسٹیٹ کوآرڈینیٹریہ سمجھا سکیں کہ ان پانچ دستاویزات کو ہٹانے کی پیروی وہ کیوں کررہے ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟
قابل ذکر ہے کہ آسام شہریت کے تعلق سے پہلے ایسے دستاویزات کی تعداد پندرہ تھی جنہیں شہریت کے ثبوت کے طورپر پیش کیا جاسکتا تھا مگر جب عدالت نے ان کی تعداد پندرہ سے کم کرکے دس کر دی تو گزشتہ سماعت میں حکومت کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے عدالت کی توجہ اس نکتہ پر مبذول کراتے ہوئے کہا تھا کہ پندرہ دستاویزات میں سے جن پانچ کو نکالاگیا ہے یہ سب رول A4 کا حصہ ہیں۔
انہوں نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ 1951 کی این آرسی اور 1971 تک کی ووٹرلسٹ خصوصی طورپر رول A4 کی بنیادپر تیارکی گئی تھی لہذا ان کا ہٹایا جانا قانونا اور اصولا غلط ہوگا۔ ان کی بات کی تائید کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل کپل سبل نے کہا کہ جو موقف حکومت ہند کا ہے وہی ہمارا بھی ہے۔ نیز ہم نے 17 ستمبر کے حلف نامہ میں بھی اپنے اس موقف کاذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بات بلاشبہ حیرت انگیز ہے کہ ان پانچ دستاویزات کی مخالفت پرتیک ہزیلاکررہے ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے آسام میں اپنا اسٹیٹ کوآڈینٹر مقررکررکھا ہے۔ ایک طرح سے ان کی حیثیت این آرسی کی تیاری میں ایک نگراں کی ہے۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے آج کی قانونی پیش رفت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ نکالے گئے پانچ دستاویزات اور شہریت سے جڑے دوسرے معاملوں پر بحث کے لئے فاضل عدالت نے یکم نومبر کا پورا دن مخصوص کردیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت اس معاملے کی حساسیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ عدالت نے اسٹیٹ کوآڈینٹر کے ذریعہ آج پیش کی گئی رپورٹ کو تمام فریقین کو مہیاکرانے کا حکم دیا ہے اور فریقین کو اس پر اپنا موقف پیش کرنیکا موقع بھی فراہم کیا ہے یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ عدالت اس اہم مسئلہ کے تمام پہلوں کا تفصیل سے جائزہ لیکر ہی کوئی فیصلہ دینا چاہتی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ عدالت کا جو فیصلہ آئے گا اس سے متاثرین کو راحت ملے گی اور ان کے اپنی شہریت ثابت کرنے کی راہ آسان ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آبجکشن اورکلیم کے عمل میں پوری تیاری سے ضروری کاغذات کے ساتھ درخواستیں پیش کی جائیں۔ اگر اس سلسلہ میں کوئی دقت پیش آتی ہے تو جمعیۃ علماء ہند کے ان وکلاء سے مدد حاصل کریں جو این آرسی کے تمام مراکز پر موجودرہتے ہیں اور بلالحاظ مذہب وملت سب کو اپنی خدمات مفت فراہم کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔