مولانا ارشد مدنی سی بی آئی عدالت کے فیصلہ سے حیران، آخر کون ہے مسجد انہدام کا مجرم؟
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ دنیا نے دیکھا کن لوگوں کی سرپرستی میں مسجد شہید ہوئی اور کون لوگ یوپی کے اقتدار اعلیٰ پر فائز تھے، باوجود اس کے عدالت نے جو فیصلہ سنایا وہ حیران کن ہے
نئی دہلی: سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کرنے والے تمام ملزمین کو باعزت بری کر دیئے جانے کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ دن کی روشنی میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا، دنیا نے دیکھا کہ کن لوگوں نے اللہ کے گھر کی بے حرمتی کی اور زمیں بوس کردیا۔
جاری ایک بیان میں مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ کن لوگوں کی سرپرستی میں مسجد شہید ہوئی اور کون لوگ یوپی کے اقتدار اعلیٰ پر فائز تھے باوجود اس کے سی بی آئی کی عدالت نے جو فیصلہ سنایا وہ حیران کرنے والا ہے۔ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا مدنی نے کہا کہ 9/ نومبر 2019/ کو سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے بابری مسجد۔رام جنم بھومی حق ملکیت پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر نہیں کی گئی تھی، چنانچہ بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے اور پھر اسے توڑنے کو مجرمانہ عمل قرار دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ جن لوگوں کی شہ پر یہ کام انجام دیا گیا وہ بھی مجرم ہیں پھر سوال یہ ہے کہ جب بابری مسجد شہید کی گئی اور شہید کرنے والے مجرم ہیں تو پھر سی بی آئی کی نظر میں سب بے گناہ کیسے ہو گئے؟ یہ انصاف ہے یا انصاف کا خون ہے؟
مولانا مدنی نے کہا کہ مسجد کن لوگوں کی سرپرستی میں توڑی گئی اور جنہوں نے مسجد کے توڑنے کو اپنی سیاست اور اقتدار کی بلندی کا سبب سمجھا تھا، وہ باعزت بری کر دیئے گئے، اگرچہ وہ لوگ بی جے پی ہی کے دور اقتدار میں سیاسی اعتبار سے بے حیثیت اور بے نام ونشان ہو گئے جو اللہ کی بے آواز لاٹھی کی مار ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سی بی آئی کورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے اور یہ باعزت بری کیے جاتے ہیں۔عقل حیران ہے کہ اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے۔ اس فیصلہ کو کس نظریہ سے دیکھا جائے۔ کیا اس فیصلہ سے عوام کا عدالت پر اعتماد بحال رہ سکے گا؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔