متھرا مسجد معاملہ: سروے مکمل کرنے کی ہندو فریقین کی عرضی، الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا
سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ کمپلیکس کے سروے کا مطالبہ کرنے والی درخواست پر فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ اب کیس سے متعلق تمام 16 مقدمات کی سماعت ایک ساتھ شروع ہوگی
الہ آباد: متھرا میں شری کرشن جنم بھومی-شاہی عیدگاہ تنازعہ کیس میں آج (16 اکتوبر) الہ آباد ہائی کورٹ میں ہندو فریقین کی ایک عرضی پر سماعت کی گئی۔ سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ کمپلیکس کے سروے کا مطالبہ کرنے والی درخواست پر فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ اب کیس سے متعلق تمام 16 مقدمات کی سماعت ایک ساتھ شروع ہوگی۔ ہندو فریقین نے کورٹ کمشنر اور اے ایس آئی کے سروے کا مطالبہ کیا ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ میں ہندو فریق کی جانب سے وشنو شنکر جین خود بھی موجود تھے۔ اسی دوران مسلم فریق کی جانب سے وکیل محمود پراچہ نے دلائل پیش کئے۔ وشنو شنکر جین نے بتایا کہ اس معاملہ میں انہوں نے کورٹ کمشنر کے ذریعہ شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کے لئے درخواست دائر کی تھی۔ جس پر معزز ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔
خیال رہے کہ ہندو فریقی کی جانب سے یہ دلیل دی گئی تھی کہ مسجد کے نیچے کئی نشانات ہیں جو ہندوؤں کے جذبات سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاہم مسجد کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی۔ تمام فریقین کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ متھرا ڈسٹرکٹ کورٹ سے منتقل کی گئی تمام 16 عرضیوں پر ہائی کورٹ براہ راست سماعت کر رہا ہے۔
دائر درخواستوں میں کل چار فریق ہیں، جس میں شاہی عیدگاہ مسجد، یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ، شری کرشنا جنم بھومی سیوا سنگھ اور شری کرشنا جنم بھومی سنگھ شامل ہیں۔ ہندو فریق کی طرف سے دائر درخواستوں میں مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، تاکہ ایودھیا کے رام مندر کی طرح متھرا میں بھی ایک عظیم الشان کرشنا مندر بنایا جا سکے۔
اس کے علاوہ درخواستوں میں 12 اکتوبر 1968 کو ہونے والے معاہدے کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت شاہی عیدگاہ مسجد کو دی گئی 13.37 ایکڑ زمین بھگوان شری کرشنا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
وہیں، آج ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران شاہی عیدگاہ مسجد کے وکیل نے کہا کہ جب تک عبادت گاہوں کے ایکٹ اور وقف ایکٹ کا معاملہ حل نہیں ہوتا، کورٹ کمشنر کا مطالبہ کرنے والی درخواست پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔