شہریت قانون مظاہرہ: 4 ماہ کے محمد اور 57 سالہ صمیدہ کی شہادت ہمیشہ رہے گی یاد
شاہین باغ مظاہرہ میں اپنی ماں کے ساتھ شامل ہونے والے معصوم محمد جہاں کی موت زکام و سینے میں جکڑن کی وجہ سے ہوئی جب کہ پارک سرکس میدان میں 26 دنوں تک دھرنا دینے والی صمیدہ ٹھنڈ کا شکار ہوئیں۔
شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف ہندوستان میں ہو رہے پرعزم خواتین کے مظاہرے پوری دنیا کے لیے مثال بن گئے ہیں۔ ٹھنڈ، بارش اور مختلف طرح کے دباؤ کے باوجود دہلی کے شاہین باغ اور پھر پارک سرکس (کولکاتا، مغربی بنگال)، گھنٹہ گھر (لکھنؤ، یو پی)، سبزی باغ (پٹنہ، بہار)، ممبئی باغ (ممبئی، مہاراشٹر) جیسے مقامات پر گزشتہ کئی دنوں سے غیر معینہ مدت کا دھرنا و مظاہرہ جاری ہے۔ سیاہ قانون کے خلاف خواتین کے پرامن مظاہرے نے ایک تاریخ رقم کر کے رکھ دی ہے اور اب تک پورے ملک میں 2 شہادتیں ایسی سامنے آئی ہیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
دراصل شہریت قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران پولس بربریت اور تشدد کی وجہ سے تو کئی جانیں تلف ہوئی ہیں، لیکن ٹھنڈ، بارش اور ناسازگار حالات میں پرامن طریقے سے جدوجہد کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے کا سہرا محمد جہاں (4 ماہ) اور صمیدہ خاتون (57 سال) کے سر بندھا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے اندر یہ دونوں شہادتیں ہوئی ہیں اور محمد جہاں کا تعلق شہرت حاصل کر چکے ’شاہین باغ‘ سے ہے، جب کہ صمیدہ خاتون نے پارک سرکس میدان میں مظاہرہ کرتے ہوئے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔
محمد جہاں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے اس کی ماں نازیہ گود میں لے کر روزانہ شاہین باغ پہنچتی تھی۔ مظاہرہ میں اس کے گالوں پر ترنگا جھنڈا کا نشان لوگ بناتے تھے۔ اس کی ٹوپی پر ’آئی لو مائی انڈیا‘ لکھا ہوتا تھا۔ یہ معصوم بچہ ٹھنڈی ہواؤں کے تھپیڑوں کو برداشت نہیں کر سکا اور زکام و سینے میں جکڑن کا شکار ہو گیا۔ نازیہ اسے دوا بھی کھلاتی تھی اور مظاہرہ میں شامل بھی ہوتی تھی۔ 30 جنوری کی رات میں محمد جہاں نیند کی آغوش میں تھا اور کب اس کی موت ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے شہریت قانون کے خلاف پرامن مظاہرے میں خاموشی کے ساتھ محمد جہاں نے شہادت حاصل کر لی۔ ماں نازیہ اور باپ عارف کے لیے یہ جانکاہ صدمہ ہے، لیکن نازیہ اب بھی مظاہرہ میں شامل ہونے کو تیار ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ’’یہ مظاہرہ میرے بچوں کے مستقبل کے لیے ہے۔ میں اس قانون کے خلاف آواز اٹھاتی رہوں گی۔‘‘
دوسری طرف پارک سرکس میدان میں شہریت قانون کے خلاف مسلسل 26 دنوں سے احتجاجی دھرنے پر بیٹھنے والی صمیدہ خاتون کا انتقال اتوار (2 فروری) کی علی الصبح تقریباً ایک بجے ہوا۔ یعنی ہفتہ کی دیر رات اس کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوئی جس کے بعد اسلامیہ اسپتال میں لوگوں نے انھیں داخل کرایا۔ کچھ دیر علاج کے بعد اسپتال انتظامیہ نےصمیدہ کے انتقال کی خبر دی۔ پارک سرکس میدان میں بیٹھنے والی کچھ خاتون مظاہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے صمیدہ کی طبیعت ناساز تھی لیکن وہ ہر حال میں مظاہرہ میں بیٹھے رہنا چاہتی تھی۔ ہفتہ کی شب ان کی حالت زیادہ بگڑ گئی جسے دیکھتے ہوئے اسپتال لے جایا گیا تھا۔ لیکن وہ واپس مظاہرہ میں بیٹھنے نہ آ سکیں۔ اتوار کی شب صمیدہ خاتون کی تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔ پارک سرکس میدان میں سبھی لوگوں نے ان کے لیے خصوصی دعائیں کی۔
شہریت قانون کے خلاف مظاہروں کے درمیان اب تک جتنی شہادتیں ہوئی ہیں ان میں محمد جہاں سب سے کم عمر بچہ ہے اور صمیدہ پہلی خاتون۔ ان شہادتوں کی خبر سے شاہین باغ اور پارک سرکس دونوں ہی جگہ بیٹھے مظاہرین کا جوش مزید بڑھا ہوا نظر آ رہا ہے اور پارک سرکس میدان میں دھرنے پر بیٹھی ایک خاتون کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ وہ ہر پریشانی برداشت کرنے کے لیے تیار ہے،لیکن جب تک سی اے اے نہیں ہٹایا جائے گا دھرنا ختم نہیں ہوگا۔ معصوم محمد جہاں کی ماں نازیہ نے بھی میڈیا میں بیان دیا ہے کہ ’’بچہ کی موت سے میرا عزم کمزور نہیں ہوا ہے، میں شاہین باغ میں بیٹھتی رہوں گی، سی اے اے-این آر سی کے خلاف اپنی آواز اٹھاتی رہوں گی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔