راہل کا موازنہ بالکل درست، سنگھ اور اخوان میں بہت کچھ قدر مشترک

سیاست اور حکمرانی میں مخصوص مذہب اور پیروکاروں کی بالا دستی، بنیاد پرستی، حقوق انسانی اور شخصی آزادی کےجدید تصور وغیرہ اخوان اور سنگھ میں قدرمشترک ہیں اور اسی جانب راہل گاندھی نے توجہ دلائی ہے۔

تصویر ٹوئٹر/<a href="https://twitter.com/divyaspandana">@divyaspandana</a>
تصویر ٹوئٹر/@divyaspandana
user

عبیداللہ ناصر

گزشتہ دنوں اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران کانگریس صدر راہل گاندھی نے خاص اور عالمی اہمیت کے حامل پلیٹ فارموں سے تقریر کی، انہوں نے بڑی بیباکی سے ان پلیٹ فارموں سے ہندستان کے سیاسی سماجی اور معاشی حالات پر اظہار راۓ کیا اور اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنی پارٹی کا موقف رکھا، چونکہ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایک جگہ کہی گی بات سیکنڈوں میں دنیا کے ہر کونے میں پہنچ جاتی ہے اس لئے سیاسی شخصیات کے سامنے صرف وہاں موجود سامعین ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ سامعین بھی ہوتے ہیں جن تک وہ اپنی بات پہنچا کر اپنی پارٹی کا ووٹ بنک بھی مضبوط کرتے ہیں ۔

ہندستان میں یہ سلسلہ وزیر اعظم نریندر مودی نے شروع کیا تھا اور مختلف ملکوں میں نام نہاد ہندستانی تارکین وطن جن میں اکثریت وشو ہندو پریشد سے وابستہ غیر مقیم ہند ستانیوں کی ہوتی ہے ، ان کے سامنے اپنے فن خطابت کا مظاہرہ کرکے بہت سی ایسی باتیں کہیں جو وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتی تھیں ، لیکن مودی مودی کا نعرہ وہاں لگا اور ووٹ بنک ہندستان میں مضبوط ہوا ، مودی جی کے نشانہ پر ہمیشہ سابقہ حکومتیں اور کانگریس پارٹی رہی ہے۔آج جو لوگ راہل گاندھی پر غیر ممالک میں ہندستان کے اندرونی معاملات پر بیان بازی کا الزام لگا رہے ہیں انہوں نے کبھی یہی سوال مودی جی سے کرنے کی ہمت کیوں نہیں دکھائی۔

اپنی انھیں تقریروں کے دوران راہل گاندھی نے آرایس ایس کا موازنہ اخوان المسلمین سے کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح متعدد عرب مالک میں سرگرم اخوان المسلمین حکومت کے سبھی شعبوں پر قابض ہو کر صرف اپنے نظریات کو ہی مسلط کرنا چاہتی ہے، راہل گاندھی کے اس بیان پر ملک میں سنگھی اور مسنگھی دونوں چراغ پا ہیں حالانکہ اگر ایمانداری سے دیکھا جاۓ تو راہل گاندھی نے با لکل درست کہا ہے کیونکہ بنیادی طور سے سنگھ اور اخوان دونوں مذہب کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل چاہتی ہیں جبکہ آج کے اس ترقی یافتہ اور ماڈرن دور میں یہ اذکار ِرفتہ نظریہ ہے۔ سنگھ ہندستان میں ہندو راشٹر کا قیام چاہتا ہے اور اخوان مسلم ملکوں میں اسلامی حکومت۔ دونوں مذہبی احیاپسندی پر اعتقاد رکھتے ہیں جبکہ آج کا جدید دور مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھنا پسند کرتا ہے۔

اخوان المسلمین کا قیام مصر میں ہوا تھا ، یہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور عرب قوم پرستی کی بنیاد پر عرب ملکوں کی تشکیل نو کے خلاف ایک تحریک تھی جو قومیت کے بجاے مذہب کی بنیاد پر عوام اور عرب ملکوں کے مابین اتحاد چاہتی تھی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مصر میں شاہ فاروق کے خلاف نوجوان فوجی افسروں کی بغاوت میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے ، یہاں تک کہ بغاوت کے قائد نوجوان کرنل جمال عبدالناصر بھی اخوان سے وابستہ رہے ہیں۔ لیکن کرنل ناصر جب جنرل نجیب کو برطرف کر کے مصر کے صدر بنے اور انہوں نے مصر کو سیکولر بنیادوں پر چلانا چاہا تو اخوان اور ناصر میں ٹھن گئی ، یہ اختلاف اس حد تک بڑھے کہ ناصر نے اخوان پر اپنی حکومت کا تختہ پلٹنے اور ان کو قتل کرنے کا الزام لگا کر نہ صرف اخوان کوغیر قانونی قرار دے کر ممنوع کر دیا ، بلکہ اس کے لیڈروں اور کارکنوں کو نہ صرف جیلوں میں ٹھونس دیا بلکہ اس کے لیڈر قطب اور حسن البنا کو قتل کروا دیا گیا تھا ۔

مصر سمیت کئی عرب ملکوں میں یہ آج بھی ممنوعہ تنظیم ہے حالانکہ مصر میں اس نے آر ایس ایس کی طرح الگ اپنی سیاسی شاخ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نام سے قائم کی اور عرب ا سپرنگ کے دور میں ہوئے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے محمد مرسی کی قیادت میں حکومت بھی بنائی لیکن امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کو یہ حکومت ہضم نہیں ہوئی ۔

محمدمرسی بھی اپنے نظریات کے حساب سے حکومت چلانے کے معاملہ میں جلد بازی سے کام لینے لگے جس سے مصر کی اقلیتوں کو شکایت پیدا ہو گئیں، مصری فوج جو پاکستانی فوج کی طرح لمبے عرصۂ سے اقتدار کے مزے اٹھا رہی تھی اور جسے اب بیرک میں واپس جانا اکھر رہا تھا اس نے مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، آئین کو رد کر دیا ، ایک بار پھر مصر میں فوجی حکومت قائم ہو گئی ۔

ادھر ہندستان میں ار ایس ایس کا قیام تقریباً اسی دور میں ہوا تھا جب مصر میں اخوان کا ہوا تھا لیکن دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے اخوان عرب ملکوں میں برٹش سامراج کی ریشہ دوانیوں کے خلاف ایک تحریک تھی جبکہ آر ایس ایس ہندستان میں برٹش سامراج کی حلقہ بگوش تھی جب پورا ملک برٹش سامراج کے خلاف سینہ سپر تھا تو یہ برٹش سامراج کو مضبوط کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا ، اسے بابا ئے قوم مہاتما گاندھی کا صلح کل کا نظریہ نہیں پسند تھا بلکہ وہ ملک میں اکثریتی ہندو فرقہ کی بالادستی اور ہندو دھرم شاستروں ، خاص کر منو اسمرتی کی بنیاد پر ملک چلانا چاہتے تھی بلکہ اب بھی اس کا نظریہ یہی ہے اس نے نہ آئین ہند کو دل سے قبول کیا ہے اور نہ ہی قومی پرچم، قومی ترانہ اور نہ بابائے قوم کو، وہ اس ملک کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں ، عیسائیوں اور کمیو نسٹوں کو غیر ملکی قرار دیتے ہوئے ان کے مساوی آئینی اور جمہوری حقوق کی بھی مخالف ہے ، جس کا واضح اور برملا اظہار سنگھ کے نظریہ ساز اور دوسرے سربراہ گولوالکر اپنی تصنیفات ’وی اینڈ آور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ ‘اور’ بنچ آف تھاؤٹس‘ میں کر چکے ہیں ، اس کے لیڈروں اور آئینی عہدیداروں کا آئیں ہند کی پاسداری اور وفاداری کا حلف محض فرض آدائیگی اور ٹیکٹکل سمجھوتہ ہے اکثر و بیشتر اس کے آئینی عہدیدار بشمول مرکزی وزرا اپنی حرکتوں اور بیانوں سے آئین ہند کی روح کو پامال کرتے رہتے ہیں ۔

2014 کے عام انتخابات میں سنگھ کی سیاسی شاخ بی جے پی کو نریندرا مودی کی قیادت میں پہلی بار مکمل اکثریت ملی تب سے اب تک کن کن لوگوں نے کس کس طرح آئیں کے الفاظ اور روح کو پامال کیا ہے اس پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، سبھی آئینی اداروں یونیورسٹیوں ، عدلیہ ، افسرشاہی وغیرہ میں جو سنگھ کے کارکن یا ہمدرد پہلے سےخاموش بیٹھے تھے وہ اب کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور نئی تقرریوں میں انھیں عناصر کو بھرا جا رہا ہے جس سے ملک کا سیکولر آیئنی نظام خطرہ میں پڑ گیا ہے، راہل گاندھی اسی خطرہ کی جانب ملک اور بیرون ملک عوام کی توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔

سیاست اور حکمرانی میں مخصوص مذہب اور اس کے پیروکاروں کی بالا دستی ، مذہبی احیا پسندی ، بنیاد پرستی، حقوق انسانی اور شخصی آزادی کے جدید تصور سے بے اعتنائی وغیرہ اخوان اور سنگھ میں قدر مشترک ہیں اور اسی جانب راہل نے توجہ دلا کر کوئی غلطی نہیں کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔