لاک ڈاؤن: اتراکھنڈ سے بجنور اپنے گاؤں پہنچے مزدوروں نے بیان کی دردناک کہانی

کورونا وائرس کے خطرہ کے درمیان ہاتھوں میں سامان کا بڑا تھیلا، کندھے پر بچے، آنکھوں میں آنسو لیے اتراکھنڈ کے ہریدوار، دہرہ دون اور پوڑی جیسے ضلعوں سے بڑی تعداد میں مزدور اپنے گاؤں بجنور پیدل پہنچے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

بجنور: دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والے ملک ہندوستان میں اس وقت انتہائی خوفناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ منظر دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس کے خوف سے کہیں زیادہ خوفناک معلوم پڑ رہا ہے۔ 24 مارچ گزرے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب پی ایم مودی نے ملک کے نام خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 25 مارچ سے 21 دن کے لیے پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن ہوگا۔ اور اس کے بعد جو خوفناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

پی ایم مودی کے اعلان کے بعد ملک کے سب سے غریب مزدور طبقہ پر تو جیسے بجلی گر پڑی۔ خصوصاً وہ مزدور افراد جو بڑے شہروں میں روزی روٹی کمانے کے لیے رہائش پذیر تھے۔ ایسے مزدور لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھوکے پیاسے پیدل ہی سینکڑوں کلو میٹر دور اپنے گاؤں کی طرف نکل پڑے۔ لاکھوں مزدور سڑکوں پر نکل پڑے اور ہزاروں خاندان پیدل چلتے ہوئے نظر آنے لگے۔ سب سے زیادہ ہجرت مزدوروں کی دہلی سے ہوئی۔ پنجاب، ہریانہ، اتراکھنڈ، راجستھان سے بھی تمام مزدوروں کو ہجرت کی یہ تکلیف اٹھانی پڑی۔


اتراکھنڈ کے ہریدوار، دہرہ دون اور پوڑی جیسے ضلعوں سے بڑی تعداد میں مزدور اپنے گاؤں بجنور پہنچے۔ ہاتھوں میں بڑا سا سامان والا تھیلا، کندھے پر بیٹھے ہوئے بچے، آنکھوں میں آنسو... بھوکے پیٹ ہجرت کر رہے ان لوگوں کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ غریب ہیں۔ اپنے گھر سے دور یہ شہروں میں روزی روٹی کمانے کے لیے گئے تھے۔ کیا یہی ان کی غلطی تھی! اکثر مختلف ریاستوں سے ان بڑے شہروں میں لوگ روزی روٹی کمانے کی جستجو میں پہنچتے ہیں۔ 24 مارچ کو جب پی ایم مودی نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو اتراکھنڈ میں بھی سبھی مزدوروں کا کام بند ہو گیا اور مالکوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ مزدوروں کی حالت اس قدر تکلیف دہ ہے کہ جو صحافی ان سے بات کرتے ہیں، ان کی بھی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

ہریدوار میں سیلون چلانے والے ضمیر احمد اپنی بیوی اور دو بیٹی کے ساتھ پیدل ہی منڈاور پہنچے۔ منڈاور بجنور ضلع کا ایک قصبہ ہے۔ دہرہ دون سے بجنور تقریباً 157 کلو میٹر دور ہے۔ ضمیر کہتے ہیں کہ کورونا سے جب مریں گے تب مریں گے، یہاں رہے تو بھوک سے مر جائیں گے۔ آنکھیں بند کر کے درد انگیز آواز میں جب ضمیر یہ کہتے ہیں کہ "اب لوٹ کر نہیں جائیں گے" تو جیسے دل سے ایک آہ نکل جاتی ہے۔


سریش کشیپ بھی ہریدوار سے بجنور پیدل پہنچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "پولس پیدل بھی نہیں چلنے دے رہی تھی۔ جگہ جگہ بیریکیٹنگ لگی ہوئی ہے۔ کہہ رہے تھے واپس جاؤ۔ ہم جنگل کے راستے گاؤں پہنچے۔ پہلے تو سب کچھ بند کر دیا اور اب لوگوں کو نکلنے نہیں دے رہے۔ کم سے کم ایک دن دینا چاہیے تھا لوگوں کو تیاری کے لیے۔ جو لوگ اپنے گھر سے باہر کھانے کمانے گئے ہوئے ہیں وہ اپنے اپنے گھر پہنچ جاتے۔" سریش کشیپ آگے کہتے ہیں کہ "یہ لوگ پہلے کرتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں۔ ہندوستان میں 70 فیصد غریب مزدور لوگ ہیں۔ کروڑوں مزدور گاؤں سے نکل کر شہروں میں کام کرتے ہیں۔ اچانک سب کچھ بند کر دیا۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ ہمیں بچانا چاہتے تھے یا امیروں کو!"

35 سال کے دل کے مریض محمد آباد منصور کپڑے کی پھیری لگانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ 180 کلو میٹر پیدل چل کر اپنے گھر پہنچے۔ 24 مارچ کی رات اپنے گھر مظفر نگر لوٹ کر وہ کہتے ہیں "میں نے کئی لوگوں کو راستے میں پیدل جاتے دیکھا، اس لیے میں نے بھی چلنے کا ارادہ کر لیا۔ اتنی بڑی ہجرت ہم نے کبھی نہیں دیکھی۔ ہو سکتا ہے ملک کی تقسیم کے وقت ایسا ہوا ہو۔ حکومت کو مزدوروں کو ان کے گھر واپس لوٹنے کا وقت دینا چاہیے تھا۔ وہ 24 گھنٹے دے کر لاک ڈاؤن کر سکتے تھے۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ ائیرلفٹ کر کے بیرون ممالک سے ہندوستانی کو بلا رہے تھے۔ لیکن اپنے ہی ملک میں رہ رہے لوگوں کو انھوں نے سڑک پر پیدل چلنے کے لیے چھوڑ دیا۔"


بجنور کے ساہنپور قصبہ میں ہماچل پردیش کے شملہ سے فرقان کی آمد ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں "میرے ساتھ دو دیگر ساتھی تھے۔ وہ کرتارپور کے تھے۔ میں وہاں بیکری کا کام کرتا تھا۔ مودی جی کے اعلان کے بعد جب کوئی گاڑی نہیں تھی تو وہ پیدل ہی چل دیے۔ راستے میں کئی جگہ پولس نے ہمیں پریشان کیا، لیکن مظفر نگر کے باگووالی میں پولس نے ہمیں چائے پلائی۔"فرقان کی تکلیف ان کے پیروں سے بھی عیاں ہوتی ہے جس میں بری طرح سوجن ہو گئی ہے اور چھالے بھی پڑ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ 24 مارچ کو پی ایم نریندر مودی نے ملک کے نام خطاب کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ 12 بجے رات سے، یعنی 25 مارچ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہوگا۔ لاک ڈاؤن کے بعد کوئی بھی بلاوجہ گھر سے باہر نکلا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرہ کے پیش نظر مرکزی حکومت نے یہ قدم اٹھایا تھا اور اس کی سیاسی پارٹیوں نے حمایت بھی کی تھی۔ لیکن بغیر تیاری کے اچانک ہوئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریبوں کو جو پریشانی ہوئی، اس پر کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران نے سوال بھی اٹھایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔